الطاف حسین بنیادی طور پر ایک غیر سیاسی شخص ہیں سیاست سے زیادہ توجہ اپنی ذاتی پبلسٹی پر دیتے ہیں ان کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ نیوز یا خبروں میں رہیں جس کیلئے وہ ہمیشہ کوئی منفرد بات کہہ دیتے ہیں جس کا مقصد ذاتی پبلسٹی حاصل کرنا ہے وہ پبلسٹی ان کو مل جاتی ہے خصوصاً مہاجر پریس، مہاجر ٹی وی اور مہاجر اخبار نویس اس کو زیادہ سے زیادہ پبلسٹی دینے کااپنے آپ کو پابند سمجھتے ہیں ان میں ایم کیو ایم مخالف مہاجر شامل نہیں ہے ایم کیو ایم اور خاص طور پر الطاف حسین کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے ایک سیاسی ہجوم ان کا حمایتی ہے ان کا کوئی طویل مدتی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے ریاستی اداروں نے اس کو قائم کیا اور اس کو مضبوط بنایا ان میں حیدر آباد میں فائرنگ اور بعد میں کراچی کے علاقے اورنگی ٹاؤن میں فائرنگ اور قتل عام ان دونوں بڑے واقعات کی کسی بھی تنظیم نے ابھی تک ذمہ داری نہیں لی اور شبہ صرف سرکاری اہلکاروں کی طرف جاتا ہے تاکہ ایم کیو ایم کو عوام کی پذیرائی صرف اس لئے حاصل ہو کہ وہ مظلوم ہیں دوسری طرف وہ اپنی لسانی پارٹی کو مافیا چیف کی حیثیت سے چلاتے ہیں یہ کوئی جمہوری پارٹی نہیں نہ ہی اہم لوگ جمہوریت پر ایمان رکھتے ہیں یہ اپنے حمایتوں کیلئے کوئی بہتری کا منصوبہ نہیں رکھتے بہر حال ایم کیو ایم کا قیام اس بات کو یقین میں بدل دیتا تھا کہ بے نظیر بھٹو کی یورپ سے وطن واپسی پر حکمران طبقات خوف میں مبتلا تھے کہ وہ امریکہ کی حمایت سے اقتدار پر آئے گی لہٰذا ان کی طاقت کو روکنے کیلئے ایم کیو ایم کو مختلف حربوں سے مضبوط بنایا اب حکمران ایم کیو ایم سے خائف ہیں ان کے رینک میں ہندوستانیوں کی موجودگی کو پاکستان کی سلامتی کیلئے خطرہ تصور کیا جارہا ہے شاید اس وجہ سے الطاف حسین کو یہ شکایت ہے کہ مقتدرہ ان پر اعتبار نہیں کرتا اسی تناظر میں وہ کہتے ہیں کہ کوئی مہاجر یا اردو بولنے والا شخص سندھ کا وزیراعلیٰ نہیں ہوسکتا اس لئے آئے دن وہ سندھ کو تقسیم کرنے کیلئے وہ نئے صوبے بنانے کی پشت پر سیاسی پناہ لیتا ہے ان کو یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ پاکستان ایک وفاق ہے اس وفاق میں پہلے پانچ وفاقی اکائیاں تھیں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد پاکستان وفاق میں چار اکائیاں رہ گئی ہیں پاکستان کے وفاق کی حیثیت کو تبدیل کرنے کا حق کسی کے پاس بھی نہیں یہاں تک پارلیمان کے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ پاکستانی وفاق کی حیثیت کو تبدیل کرے دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب صاف اور واضح طور پر یہ تسلیم کیا جائیگا کہ پاکستان کے اتحاد کی بنیاد ختم ہوگئی ان چاروں اکائیوں کے اکٹھے رہنے کا جواز ختم ہوجائیگا ان حقائق کی روشنی میں یہ مطالبہ کرنا کہ پاکستانی فیڈریشن کی حیثیت کو تبدیل کیا جائے اور چار وفاقی اکائیوں کے بجائے 20انتظامی صوبے بنائے جائیں یہ سیاسی شعبدہ بازی ہے یا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ انتظامی طور پر 20نئے پاکستان بنائے جائیں جن میں سے چار پانچ پر الطاف حسین کی حکمرانی ہو یہ بات طے ہے کہ بلوچستان کا وزیراعلیٰ بلوچ ہوگا سندھ کا سندھی پنجاب کا پنجابی ہوگا اور کے پی کے کا پختون یا ہزارے وال ہوگا وجہ ہندوستان سے آنے والے افراد کیخلاف نفرت نہیں ہے پھر وہ سندھ کو کیوں ٹارگٹ کرتے ہیں حالانکہ پنجاب میں مہاجروں کی تعداد خاصی ہے انہوں نے پنجابیوں کے خوف سے اردو بولنا تک چھوڑ دیا ہے کہاں مہاجر کا پنجاب کا وزیراعلیٰ بننا، الطاف حسین کو معلوم ہے کہ مہاجر سندھ کا وزیراعلیٰ نہیں بن سکتا اس لئے سندھ کو کسی نہ کسی بہانے تقسیم کیا جائے یہ کسی طرح بھی پاکستان اور سندھ کی خدمت نہیں ہے سندھ دشمنی واضح ہے کہ دنیا بھر سے لاکھوں لوگوں کو دعوت دیکر سندھ میں صرف اس لئے آباد کیا گیا ہے کہ سندھی اپنی ہی سرزمین پر اقلیت میں تبدیل ہوجائیں۔
الطاف حسین کے 20صوبے ۔۔۔ صدیق بلوچ
وقتِ اشاعت : September 19 – 2014