|

وقتِ اشاعت :   September 19 – 2014

کوئٹہ پاکستان کا واحد شہر ہے جہاں پر لوگ ٹریفک قوانین پر عمل کرنا اپنی توہین سمجھتے ہیں ۔ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر فخر محسوس کرتے ہیں ۔ بلکہ موٹر سائیکل سوار ٹریفک کے سپاہی کو گالیاں بک کر قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فرار ہوتے ہیں ۔ ٹریفک کا سپاہی پیدل ہوتاہے اور ان نوجوان موٹر سائیکل سواروں کا پیچھا نہیں کر سکتا ۔ آج کل کے دور میں دو عناصر ٹریفک کے قوانین کی زیادہ خلاف ورزی کرتے ہیں ایک نوجوان موٹر سائیکل سوار اوردوسرا رکشہ ڈرائیور ، رکشتہ ڈرائیوروں کو ٹریفک کے قوانین کا علم نہیں ہوتا اور وہ سیدھے ڈرائیورنگ سیٹ پر بیٹھ جاتے ہیں اور ٹریفک کے قوانین کو خاطر میں نہیں لاتے ۔اس کی وجہ سے لوگوں کو پریشانی لاحق ہوجاتی ہے اور ٹریفک جام رہتا ہے ۔ اس ساری صورت حال میں ٹریفک کا سپاہی حیران رہتاہے اس کا کوئی حکم نہیں مانتا۔ اس کی بات کوئی نہیں سنتا اس وجہ سے سڑکوں پر مکمل انار کی ہے ۔وجہ یہ ہے کہ ہرشخص کو یہ بات معلوم ہے کہ ٹریفک کی خلاف ورزی کرنے پر اس کوکوئی سزا نہیں ملے گی ۔ عدالتیں روزانہ دس ہزار چالان پر فیصلے نہیں کرسکتے نہ ہی پولیس کے پاس اتنی بڑی نفری ہے کہ وہ وارنٹ لے کر ہر ملزم کے گھر پہنچ جائے کہ اس نے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کی ہے ۔اس کا واحدحل یہ ہے کہ گشتی مجسٹریٹ موقع پر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر بھاری جرمانہ عائد کرے، جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں گاڑی کو 15دن کے لئے پولیس کی تحویل میں رکھا جائے اور ملزم پورے شہر میں پیدل گھومتاپھرے۔ جب تک ٹریفک کے قوانین پر سختی اور بے رحمی سے عمل درآمد نہیں ہوتا ٹریفک کی معمول کی روانی میں مشکلات پیدا ہوں گی ۔محکمہ ایکسائز کے دفتر میں ہڑتال ہے ۔ بعض قانون پسند لوگوں کو موٹر سائیکل یا کار کا نمبر پلیٹ ہفتوں سے نہیں ملا وہ چیکنگ کے دوران گرفتارہوتے ہیں ۔ ان پر جرمانہ عائد ہوتا ہے ایسے مقدمات میں لوگوں کے ساتھ نرمی برتی جائے کیونکہ متعلقہ محکمہ میں ہڑتال ہے ۔ اس میں لوگوں کا کوئی قصور نہیں ۔ البتہ کوئٹہ شہر میں ہزاروں گاڑیاں جعلی نمبرپلیٹ یا بغیر نمبر پلیٹ کی چل رہی ہیں وزراء صاحبان کی گاڑیوں پر سرکاری نمبر پلیٹ کے بجائے Ministerلکھا ہوا ہوتا ہے یہ ایک لائسنس ہے کہ بغیر نمبر پلیٹ کے جتنی مرضی چاہے قانون کی خلاف ورزی کرے۔ ایک ایم پی اے کے گارڈز نے پولیس والوں کی مکمل مرمت کر ڈالی اورایم پی اے صاحب نے اپنا سیاسی اثر ورسوخ استعمال کرکے پولیس کو ہی موردالزام ٹھہرایا ۔ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی ایم پی اے اور ان کے گارڈز صاحبان نے کی اور سزا پولیس کو ملی ۔ اسی طرح سے مقامی یا لوکل بس والوں کو بھی ٹریفک قوانین کا پابند بنایا جائے تاکہ وہ مسافروں سے بہتر سلوک کریں اور ان کے ساتھ احترام کے ساتھ پیش آئیں ۔ لوکل بسوں پر کم سن ملازمین کو فارغ کیاجائے یا ان کے خلاف چائلڈ لیبر قوانین کے تحت مقدمات قائم کیے جائیں ۔ بنیادی طورپر یہ ضروری ہے کہ لوکل بس آپریٹرز کو ٹریفک قوانین کا پابند بنایا جائے ۔ بے ہنگم ٹریفک کی ذمہ دار کسی حدتک لوکل بس بھی ہیں جو مین شاہراہوں کو اپنی مرضی سے بند کردیتے ہیں اگر کوئی گاڑی والا احتجاج کرتا ہے تو وہ مار پیٹ پر اتر آتے ہیں اس لئے ضروری ہے کہ حکومت نئے لوگوں اور نئی کمپنیوں کو روٹ پرمٹ دے تاکہ وہ نئی اور اچھی بسیں چلائیں اور لوگوں کو بہتر سہولیات فراہم کریں ۔ ایک اور اہم بات انٹر سٹی بس کے گاڑیوں کی ہے وہ کوئٹہ میں آتے جاتے ٹریفک کے مسائل کھڑے کرتے ہیں ان کو اس بات کاپابند بنایا جائے کہ وہ ٹرمینل کے اندر رہیں اور روانگی کے وقت وہ سڑکوں پر اپنی بسیں کھڑی نہ کریں یا ٹریفک کی روانی میں خلل نہ ڈالیں ۔ یہ بہت بہتر ہوگا کہ حکومت یا مقامی انتظامیہ زیادہ سے زیادہ بس ٹرمینل شہر کے اندر بنائے اور مسافروں کو سہولیات فراہم کرے ۔کوئٹہ سے باہر بس اڈہ منتقل کرنے کا مطلب مسافروں کو زیادہ سے زیادہ اذیتیں پہنچانا ہوگا ،انکو سہولیات فراہم کرنا نہیں۔ دنیا بھر کے بس اڈے شہروں کے بیچ واقع ہیں اور لوگوں اور مسافروں کی آسانی کے لئے ہیں کہ جلد از جلد وہ اپنے گھروں کو پہنچ جائیں ۔