|

وقتِ اشاعت :   September 19 – 2014

اسلام آباد: ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کے خلاف غداری کے الزامات کی تحقیق کرنے والی ٹیم کے سربراہ نے کل عدالت میں کہا کہ تین نومبر 2007ء کو ملک میں ہنگامی حالت (ایمرجنسی) کے نفاذ سے متعلق ریکارڈ سابق صدر کے عملے کے سربراہ کی جانب سے غائب کردیا گیا تھا۔ وکیل صفائی کی جانب سے جرح کے آخری دن ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل محمد خالد قریشی نے جسٹس فیصل عرب کی سربراہی میں قائم خصوصی عدالت کو بتایا کہ جس وقت پرویز مشرف نے چیف آف آرمی اسٹاف کی حیثیت سے ہنگامی حالت کے نفاذ کا حکم جاری کیا تھا، اس وقت اس اعلان کا ریکارڈ ان کے عملے کے سربراہ کی نگرانی میں تھا۔ خالد قریشی کا کہنا تھا کہ جب ہنگامی حالت نافذ کی گئی، اس وقت ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل حامد جاوید اس عہدے پر فائز تھے۔ لیکن جب لیفٹننٹ جنرل ریٹائرڈ حامد جاوید سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے ڈان کو بتایا کہ وہ اس حکم کے جاری ہونے سے پہلے ہی ریٹائرڈ ہوچکے تھے،اور اس وقت ایوانِ صدر کے ساتھ رابطے میں نہیں تھے۔ ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر نے یہ بات بھی دوہرائی کے بار بار کی کوششوں کے باوجود فوج کے جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو) نے تحقیقاتی ٹیم کو متعلقہ ریکارڈ تک رسائی کی اجازت نہیں دی۔ واضح رہے کہ تحقیقاتی رپورٹ کے صفحہ 237 کے اختتامی پیراگراف میں یہ سفارش بھی شامل ہے: ’’تحقیقاتی ٹیم مزید سفارش کرتی ہے کہ ایسے مجاز حکام کو بھی جانچ میں شامل کیا جاسکتا ہے، جنہوں نے ہنگامی حالت کے غیرآئینی نفاذ کے معاملے میں کئی طرح سے سہولت کار کا کردار ادا کیا تھا۔‘‘ پرویز مشرف کے وکیل بیرسٹر فروغ نسیم کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں خالد قریشی نے عدالت کو بتایا ’’مجاز حکام نے ان کے سہولت کار کے کردار پر تفتیش کی اجازت نہیں دی۔‘‘ غداری کے مقدمے میں خالد قریشی استغاثہ کے آخری گواہ تھے، ان کا کہنا تھا کہ سابق فوجی حکمران کے خلاف شکایت درج کروانے کےبعد اس بات کا تعین کرنے میں کہ تین نومبر 2007ء کوہنگامی حالت کے نفاذ میں کوئی سہولت کار ملؤث تھا یا نہیں، تحقیقاتی ٹیم کوئی پیش رفت نہیں کرسکی۔ ایک نکتے پر بیرسٹر فروغ نسیم نے نشاندہی کی کہ ہنگامی حالت نافذ کرنے کے اعلان میں خصوصی طور پر بیان ہوا ہے کہ ’’اس صورتحال کا وزیراعظم، چاروں صوبوں کے گورنروں، چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی، چیف آف آرمڈ فورسز، وائس چیف آف آرمی اسٹاف اور پاک فوج کے کورکمانڈروں کے ساتھ ملاقاتوں میں جائزہ لیا گیا تھا۔‘‘ انہوں نے گواہ سے پوچھا کہ کیا تحقیقاتی ٹیم نے ان میں سے کسی عہدے داروں کے خلاف نوٹس جاری کیا، جن کا اس اعلان میں ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے جواب میں خالد قریشی نے کہا کہ جن افراد کا اس اعلان میں ذکر کیا گیا تھا، ان میں سے صرف دو گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد اور سابق گورنر پنجاب ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل خالد مقبول کے بیانات ریکارڈ کیے گئے تھے۔ بیرسٹر فروغ نسیم نے جمعرات کو خالد قریشی پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ حکمران جماعت کے بعض سیاستدانوں کے ساتھ اپنے تعلقات کی وجہ سے انہوں نے جان بوجھ کر پرویز مشرف کو غداری کیس میں نشانہ بنایا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہی آفیسر نے بے نظیر بھٹو کے قتل میں سابق فوجی حکمران کو ملؤث ہونے کا الزم لگایا تھا۔ تاہم ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر نے ان تمام الزامات کو مسترد کردیا۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ایف آئی اے کے خصوصی تحقیقاتی یونٹ کے سربراہ کے طور پر انہوں نے جو پہلا کیس نمٹایا تھا، وہ پرویز مشرف پر 2008ء میں ہوئے حملے سے متعلق تھا، یہ ان چند کیسوں میں سے ایک تھا، جس میں ملزمان کو راولپنڈی کی انسدادِ دہشت گردی کی عدالت سے سزا سنائی گئی تھی۔ غداری کے مقدمے میں خصوصی عدالت کی مزید کارروائی یکم اکتوبر تک ملتوی کردی گئی، اگلی سماعت میں پرویز مشرف کے وکیل کی جانب سے دائر کی گئی ایک درخواست کو اُٹھایا جائے گا، جس میں کہا گیا ہے کہ اسی مقدمے میں سابق صدر کے ساتھ مبینہ طور پر ان کی اعانت کر نے والوں کے خلاف بھی سماعت کی جائے۔ توقع ہے کہ عدالت پرویز مشرف کو ان کا بیان ریکارڈ کروانے کے لیے طلب کرے گی، جس کے بعد اس درخواست کا فیصلہ کیا جائے گا۔