اسلام آباد : لاہور سے تعلق رکھنے والی ایک نوجوان ڈاکٹر صدف بخاری کو اپنی ڈیوٹی ادا کرنے کی بجائے وفاقی دارالحکومت جاکر پی اے ٹی کے دھرنے کے شرکاءکی مدد کرنے پر ملازمت سے فارغ کردیا گیا۔
جوہر ٹاﺅن کی چوبیس سالہ صدف کنگ ایڈورڈ کالج سے ایم بی بی ایس مکمل کرنے کے بعد لاہور کے میئو ہسپتال میں ہاﺅس جاب کررہی تھی۔
صدف نےبتایا”میں نے ہاﺅس جاب کے چھ ماہ مکمل کرلیے تھے مگر ملازمت سے میری غیرحاضری پر ہسپتال کی انتطامیہ نے میرا اپائٹمنٹ منسوخ کردیا”۔
اس نے بتایا”ہسپتال انتظامیہ نے مجھے فون کیا اور بتایا کہ میری طویل غیرحاضری کے باعث میرے لیے اپنی سروس کو جاری رکھنا مشکل ہوگا”۔
ڈاکٹر صدف نے دعویٰ کیا کہ وہ پی اے ٹی کے حامی نہیں مگر وہ اسلام آباد دھرنے کے شرکاءکی مدد کے لیے آئی ہے جنھیں مختلف امراض کا سامنا ہے۔
صدف کا کہنا تھا”مجھے میڈیکل آفیسر بننے کے لیے مزید دس ماہ تک ہاﺅس جاب کرنا تھی مگر اب مجھے کسی اور ہسپتال میں ہاﺅس جاب دوبارہ شروع کرنے میں مشکل کا سامنا ہوگا”۔
اس نے بتایا کہ اسے ہاﺅس جاب کے دوران ماہانہ اٹھارہ ہزار روپے مل رہے تھے”کیا آپ سوچ سکتے ہیں میرے لیے ہاﺅس جاب تلاش کرنا اور شروع کرنا آسان ہوگا؟میرے لیے اپنی ملازمت جاری رکھنا بہت اہیت رکھتا ہے کیونکہ اس کے ذریعے میں اپنے خاندان کے لیے کمانے کے قابل ہوسکتی ہوں، میں اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہوں”۔
روس سے میڈیکل ڈگری حاصل کرنے والی ڈاکٹر عظمیٰ نواز گوندل جو منڈی بہاﺅالدین کی رہائشی ہیں لاہور میں ایک نجی ہوسٹل میں رہ کر اپنی ہاﺅس جاب مکمل کررہی ہیں۔
ان کا کہنا ہے”میں نے سرگنگارام ہسپتال میں ہاﺅس جاب کے چودہ ماہ مکمل کرلیے ہیں اور اگلے دو ماہ بعد میں میڈیکل آفیسر کی حیثیت سے کام کرنے کے قابل ہوجاﺅں گی”۔
عظمی کا کہنا تھا کہ ہسپتال کی انتطامیہ نے اس کی برطرفی کا لیٹر جاری کیا ہے جس کی وجہ کام سے ایک ماہ کی طویل غیرحاضری ہے کیونکہ اس عرصے کے دوران وہ اسلام آباد میں دھرنے میں شریک بیمار افراد کا علاج کررہی تھیں۔
راولپنڈی کی رہائشی ڈاکٹر آمنہ اسلام آباد کے ایک نجی ہسپتال میں ملازمت کرتی ہیں،جس کی انتظامیہ نے غیرحاضری پر انہیں فارغ کردیا ہے۔
آمنہ کا کہنا ہے”میں پی اے ٹی اور پی ٹی آئی کی حامی نہیں، مگر پولیس اور مظاہرین کے درمیان تیس اگست کو ہونے والے تصادم کے بعد بطور ڈاکٹر میرے لیے گھر میں بیٹھے رہنا مشکل ہوگیا تھا”۔
آمنہ کا ماننا ہے کہ ایک ڈاکٹر کی ذمہ داری بلاامتیاز مریضوں کو علاج کی سہولت فراہم کرنا ہوتی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت دھرنے میں رہ کر مختلف امراض کے شکار افراد کا علاج کرتے ہوئے گزارتی ہیں۔
ایک اور ڈاکٹر کلثوم طفیل نے بتایا کہ وہ لاہور کے پنجاب انسٹیٹوٹ آف مینٹل ہیلتھ میں کلینکل سائیکلوجسٹ کی حیثیت سے کام کررہی تھیں۔
انہوں نے بتایا”فاطمہ جناح میڈیکل کالج لاہور سے ایم بی بی ایس کے بعد میں نے اسی کالج سے اسپیشلائزیشن کی اور پی آئی ایم ایچ میں کنٹریکٹ پر ملازمت حاصل کرلی، تاہم اب ہسپتال کی انتطامیہ نے فون پر مجھے کہا ہے کہ وہ مجھے ایک ماہ طویل تعطیلات کی اجازت نہیں دے سکتے، انہوں نے مجھے ہسپتال واپس نہ آنے کا کہا ہے”۔
میئو ہسپتال میں صدف بخاری کے سپروائزر ڈاکٹر اسمعیل جنجوعہ نے بتایا کہ ہسپتال انتظامیہ کے لیے ہاﺅس آفیسرز کو تین روز سے زائد عرصے تک غیرحاضر رہنے ی اجازت دینا مشکل ہے۔
انہوں نے کہا”اگرچہ موجودہ حالات میں کسی کے لیے ملازمت کے بغیر زندگی گزارنا آسان نہیں، مگر انتظامیہ کے پاس اپنی ڈیوٹی سے غیرحاضر ڈاکٹرز کو برطرف کرنے کے سوا کوئی آپشن نہیں”۔