|

وقتِ اشاعت :   September 23 – 2014

mansha fareediہم ایسی بد قسمت قوم ہیں کہ جس نے کبھی بھی تلخ ماضی سے سبق نہیں سیکھا اور نہ ہی مثالی ماضی سے ترقی کرنے کے اصول وضوابط سیکھے ۔ جس طر ح ماضی میں ہم پاکستانی سیاسی ، اخلاقی اور سماجی بے راہروی کا شکار رہے ہیں اسی طرح آج بھی ہم نے زندگی کے ہر میدان میں بے عملی کی حد کردی ہے ۔ نہ ہی ہمارے اندر احساسِ سودو زیاں ہے اور نہ ہی اپنے دشمنوں کو پہچاننے کی قدرت ۔ وہ عناصر جنہیں ہم نے ( ’’ہم‘‘ سے مراد ماضی و حال کے وہ حکمران ہیں جنہوں نے ایسی پالیسیاں متعارف کرائیں کہ جن کے کچھ مخصوص مقاصد تھے ۔ نتیجے میں آج وطن عزیز پاکستان اغیار کی جنگ میں شدید نقصان اٹھارہا ہے ۔ جلد یا بدیر اس کے مثبت نتائج ضرور ملیں گے لیکن ملک میں جاری انتہا و شدت پسندی جو بالخصوص مذہبی فرقوں سے مربوط ہے مستقبل میں دور دور تک خطرے کی گھنٹی ضرور ہے۔ اس شدت پسندی اور دہشت گردی پر وسعتِ فکر سے قابو پایا جا سکتا ہے) عارضی مفادات کے لئے استعمال کیا تھا ۔ اب وہ ہماری بقاء کے ہی در پے ہو گئے ہیں اور ہماری سالمیت اور سلامتی کے دشمن ہیں اور اس دشمنی میں تمام تر حدیں پھلانگ گئے ہیں ۔ پھر بھی ہمارے پالیسی سازوں نے انہیں پہلو میں جگہ دے رکھی ہے ۔ ان عقل کے اندھوں کو اس تلخ حقیقت کا ہرگز ادراک نہیں رہا کہ یہ گروہ جنہیں ہم اپنے وطن ، دین اور روایات کا امین قرار دے رہے ہیں حقیقت میں ہمارے دین ، وطن اور غیرت و روایات کے بد ترین دشمن ہیں ۔ ملک کے اندر اپنے سیاسی اور پیشہ ورانہ دشمنوں کو مارنا مقصود ہو یا فرقہ واریت کی بنیاد پر ہوئے اختلافات کوہوا دینا یا ان اختلافات کی بناء پر پیدا شدہ دشمنی کا انتقام لینا ہو ان سب اغراض اور اہداف کے حصول کیلئے اوپر بیٹھے اور مختارِ کل ان گروہوں کو استعمال کر کے اپنے اہداف حاصل کرتے رہتے ہیں لیکن نتائج مثبت کی بجائے منفی ہی نکلتے رہے ۔ اس ضمن میں متعدد بار رائے دے چکا ہوں کہ مخصوص مقاصد کیلئے ذلیل قسم کی حکمت عملیوں ( پالیسیوں ) سے احتراز کیا جائے ۔ مسلح طا قتور گروہ کسی بھی خطے کیلئے امن کا پیغا م نہیں لاتے ۔ معاشرے میں مستقل انتشار و اشتعال کا شاخسانہ بھی یہی گروہ ہیں جن کا ہمیں سامنا ہے ۔ اگر ہم نے ماضی سے سبق سیکھا ہوتا تو آج ہمیں اسقدر نقصان نہ اٹھانا پڑتا۔ ہمارے سکیورٹی ادارے اس وقت ایک نہیں کئی محاذوں پر بر سر پیکار ہیں ۔ یہ جنگجو وطن عزیز میں کس طرح وار د، داخل اور پیدا ہوئے؟اس سے سبھی با خبر ہیں مگر مصلحتاً اس پر خاموشی رہتی ہے۔ اسلام آباد میں جاری دھرنوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا جبکہ لاہور میں منہاج القرآن کے سیکر ٹریٹ یا پاکستان عومی تحریک کے کارکنوں پر گلو بٹوں کے ذریعے حملہ کر ا کے بے تکی سنجیدگی دکھائی گئی۔ بعد میں انہی دھرنوں پر جب اسلام آباد میں اندھا دھند شیلنگ اور فائرنگ کی گئی تو حکومت اور انتظامیہ کے اس عمل پر میرے جیسے دیگر قلم کاروں نے بر سر اقتدار طبقے پر اظہار خفگی کیا ۔ اگر یہ دھرنے نتیجہ خیز ثابت ہوئے تو یقیناًموجودہ حکومتی سیٹ اپ کو نا قابل تلافی نقصان ہوگا لیکن میاں برادران اور وزیر داخلہ سب سے زیادہ متاثر ہوں گے ۔ ماضی میں ذو الفقا ر علی بھٹو ( سابق وزیر اعظم پاکستان ) بھی مصلوب ہو چکے ہیں ۔ اس تلخ ماضی سے ہمارے موجودہ اقتدار کے پنڈت نہ جانے کیوں لا علم ہیں ۔۔۔۔؟ بجلی ( توانائی ) کے میدان میں ہماری پسماندگی پوری دنیا میں مثالی نمونہ ہے ۔ بجلی کا تعطل ( لوڈ شیڈنگ ) ملک کو معاشی ، اقتصادی اور دیگر میدانوں میں جو نقصان دے رہا ہے اس سے ملکی و قومی معیشت کا بیڑہ غرق ہو چکا ہے اور پاکستان غیر ملکی سرمایہ کاری کے قابل ہی نہیں رہا کیونکہ پاکستان جیسے عظیم ملک ( جہاں افرادی قوت ریکارڈ حدتک موجود ہے ۔ انتہائی با صلاحیت افراد موجود ہیں۔ لیکن کار آمد افرادی قوت کو جان بوجھ کر دیمک زدہ کیا جا رہا ہے ۔ دریا اور زرخیز زمینیں ہیں جو فصلات اور پھل دار درختوں کیلئے مو زوں ترین ہیں ۔)کو جاگیر دار اور سر مایہ دار سیاستدانوں، کرائے کے فتویٰ سازوں اور کرپٹ ذہن کی حامل افسر و نوکر شاہی نے انویسٹر ز کے زر اور سرمایہ کاری کو غیر محفوظ کر دیا ہے ۔ ایسے میں تجارتی حوالے سے پاکستان کی تنہائی بعید از قیاس نہیں ہے ۔ حالیہ سیلاب نے ماضی بعید و قریب کی طرح بے شمار قیمتی انسانی جانیں لیں ہے ۔۔۔۔ فصلات ، مویشی اور جمع پونجی بہاکر لے گیا ہے اور ساتھ ہی زراعت کیلئے شہد سے بھی قیمتی دریائی پانی سمندر برد ہو جائے گا۔کیا اس پر بھی وطن عزیز پاکستان کے حکمران ماضی سے سبق سیکھنے کی بجائے تاریخی نقصان کے حصول کو ترجیح دیں گے۔۔۔۔؟