اسلام آباد: قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق نے اپنا اصرار جاری رکھا ہوا ہے کہ وہ پاکستان تحریک انصاف کے اراکین پارلیمنٹ سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں، جنہوں نے اپنے استعفے جمع کروائے ہیں، وہ ایوان کو چھوڑنے کے ان کے ارادے کی ذاتی طور پر تصدیق کے خواہشمند ہیں۔
لیکن پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی اپنے مؤقف پر قائم ہیں کہ پی ٹی آئی کے تمام تیس اراکین نے اپنے استعفے اکھٹے جمع کرائے تھے، لہٰذااِنہیں بیک وقت ہی قبول کیا جانا چاہیے۔
اسی دوران قومی اسمبلی کے میڈیا ونگ نے بدھ کے روز ایک نہایت واضح بیان جاری کیا، جس میں دلیل دی گئی تھی کہ قومی اسمبلی کی انضباطی کارروائی اور معاملات کی رہنمائی کےقوانین43(2) بی کے تحت اسپیکر اس بات کا پابند ہے کہ وہ استعفے دینے والے رکن اسمبلی کے ارادے کی ذاتی طور پر تصدیق کرے۔
منگل کے روز پی ٹی آئی کو اسپیکر نے ایک خط میں تحریر کیا تھاجس میں کہا گیا تھا کہ وہ انہیں گروپ کی شکل میں مدعو کرتے ہیں تاکہ ان کے استعفے کی تصدیق کی جاسکے۔
اسی تناظر میں قومی اسمبلی سیکریٹیریٹ سے جاری ہونے والے ایک سرکاری بیان کے مطابق اسپیکر کے دفتر نے پی ٹی آئی کے اراکین پارلیمنٹ سے دوبارہ کہا ہے کہ وہ طے شدہ شیڈول پر ملاقات کریں، جس شیڈول پر انہوں نے پہلے ہی اتفاق کیا تھا۔
دوسری جانب پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی نے بدھ کے روز ہونے والے اپنے اجلاس کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ اسپیکر کی ہدایات پر عمل نہیں کیا جائے گا اور اپنے پچھلے مؤقف پر قائم رہا جائے گا، یعنی کوئی بھی اسپیکر کے آفس نہیں جائے گا۔
تاہم سابق وزیرِ قانون اور آئینی ماہر ایس ایم ظفر نے ڈان کو بتایا کہ اراکین قومی اسمبلی کی ذاتی حاضری کی کوئی ضرورت نہیں ہے، جس کا اسپیکر کے آفس کی جانب سے مطالبہ کیا جارہا ہے۔ انہوں نے آئین کے آرٹیکل 64(1) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کا ماننا ہے کہ زیادہ سے زیادہ ایک تحریری استعفیٰ جمع کروانا ہی کافی ہے۔
آرٹیکل 64(1) میں بیان ہوا ہے کہ:
’’ایک رکنِ پارلیمنٹ اپنی نشست سے استعفٰی دینے کے لیے اسپیکر کے نام ایک تحریری درخواست دے سکتا ہے۔ اور اس کے بعد اس کی نشست خالی ہوجائے گی۔‘‘
جبکہ آئین کے آرٹیکل 64(2) کے مطابق ’’اگر ایک رکن بغیر درخواست دیے ایوان چھوڑ دے اور وہ مسلسل چالیس دن تک ایوان سے غیر حاضر رہے تو ایوان خود اس کی نشست کو خالی قرار دے سکتا ہے۔‘‘
ایس ایم ظفر نے اصرار کیا کہ یہ بالکل واضح ہے کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر مزید کسی تاخیر کے بغیر پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کے استعفے قانون کے مطابق قبول کرسکتے ہیں۔
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے اسپیکر پر زور دیا ہے کہ یہ استعفے قبول کرنے میں اس وقت تک تاخیر کی جائے جب تک حزبِ اختلاف کا ثالثی جرگہ دونوں مخالف فریقوں کے درمیان مفاہمت کی کوششیں کررہا ہے۔
لیکن پی ٹی آئی کی قیادت بعض خدشات کا دعویٰ کرتی ہے۔ پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عارف علوی نے ڈان کو بتایا کہ ’’حکومتی لابی اس مشن پر ہے کہ ہماری صفوں میں دراڑ پیدا کرے اور اپنے مقاصد کے حصول کے لیے وہ ہرممکن حربے استعمال کررہی ہے۔‘‘
جب ان سے سوال کیا گیا کہ کیا اس بات کا امکان ہے کہ ان کی پارٹی کے اراکین پارلیمنٹ استعفے کے متعلق اپنا فیصلہ تبدیل کرلیں گے، تو انہوں نے کہا ’’حکومت نے پہلے ہی ہمارے تین رکن قومی اسمبلی گلزار خان، ناصر خٹک اور مسرت زیب کو اب تک پکڑا ہوا ہے، یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ ن کے خلاف ہمارے تحفظات نے ہمیں روکا ہوا ہے۔
اسپیکر پر براہِ راست الزام عائد کرتے ہوئےڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ ہر ایک کے ساتھ ذاتی طور پر ملاقات کا مطلب صرف یہی ہے کہ پی ٹی آئی کے اراکین پارلیمنٹ پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ اسمبلی چھوڑنے کا اپنا فیصلہ تبدیل کرلیں۔انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن کی تاریخ گواہ ہے کہ ماضی میں اس نے اراکین اسمبلی کی وفاداریوں کو خریدا تھا۔
لاہور سے امجد محمود کی رپورٹ:
پنجاب اسمبلی کے اسپیکر نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے اراکین صوبائی اسمبلی کو تین اور چار کے گروپ میں مدعو کریں گے، تاکہ اس بات کی تصدیق ہوسکے کہ انہوں نے اپنا استعفیٰ بغیر کسی دباؤ کے دیا ہے۔
پہلے مرحلے میں وحید اصغر ڈوگر، نبیلہ حکیم خان، ملک تیمور مسعود اور راجہ راشد حفیظ سے کہا گیا ہے کہ وہ پیر کے روز اسپیکر رانا محمد اقبال سے ملاقات کریں۔
بدھ کے روز اسپیکر نے صحافیوں کو بتایا کہ انہیں پی ٹی آئی کے 29 اراکین اسمبلی کے استعفے اسمبلی کے سیکریٹری کے ذریعے موصول ہوئے تھے۔
آئین کے آرٹیکل 64(1) کے تحت کوئی بھی منتخب نمائندہ اپنا استعفیٰ اسپیکر کے نام ایک سادہ کاغذ پر تحریر کرسکتا ہے۔
پنجاب اسمبلی کی انصباطی کاروائی کے قوانین 1997ء کے سیکشن 35(2-بی) کا حوالہ دیتے ہوئے رانا اقبال نے کہا کہ انہیں یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ ذاتی طور پر اس بات کی تصدیق کی جائے کہ یہ استعفے کسی جبر کے تحت تو نہیں دیے گئے تھے۔ خاص طور پر اس صورت میں جبکہ یہ ان کے سامنے براہِ راست ذاتی طور پر پیش ہونے کے بجائے کسی دوسرے چینل کے ذریعے بھیجے گئے ہوں۔
انہوں نے زور دیا کہ قانون اور طریقہ کار کی پیروی میں انہوں نے پی ٹی آئی کے اراکین کو انفرادی طور پر اپنے سامنے پیش ہونے کے لیے مدعو کیا تھا، اس لیے کہ سوائے چند ایک کے تمام نے اپنے استعفے دیگر چینلز کے ذریعے بھیجے تھے۔
یہ استعفے میڈیا کی موجودگی میں 27 اگست کو قائدِ حزبِ اختلاف میاں محمود الرحمان کے حوالے کیے گئے تھے۔
میاں محمود الرحمان پی ٹی آئی کی کور کمیٹی کے ایک رکن بھی ہیں۔
صوبائی اسمبلی کی رکن نگہت انتصار بھٹی، جنہوں نے حال ہی میں حافظ آباد ڈسٹرکٹ کی ایک نشست پر ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی، اب تک اپنا استعفٰی پیش نہیں کیا ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ ملک سے باہر گئی ہوئی ہیں، اور ملک واپس آنے کے بعد اپنا استعفیٰ دے دیں گی۔
استعفوں پر اسپیکر قومی اسمبلی اور پی ٹی آئی اپنے مؤقف پر قائم
وقتِ اشاعت : September 25 – 2014