کراچی: پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ایم کیو ایم کے دھرنے ختم ہونے کے بعد شہر میں تمام نجی تعلیمی ادارے کھول گئے ہیں، جبکہ جامعہ کراچی کے تحت آج ہونے والے پرچے معمول کے مطابق ہونگے۔
خیال رہے کہ بدھ کی رات ایم کیو ایم کے گلشنِ معمار میں واقع سیکٹر پر چھاپے اور کارکنوں کی گرفتاریوں کے خلاف ایم کیو ایم نے کراچی میں نو مقامات پر دھرنے دے دیے تھے۔
شہر میں ان دھرنوں کے باعث ٹریفک کا نظام بری طرح متاثر ہوا جس سے لوگوں کو مشکالات کا سامنا کرنا پڑا۔
الطاف حسین کی ہدایت پر شہر میں تقریبا اکیس گھنٹوں تک متحدہ قومی موومنٹ کا دھرنا جاری رہا اور ایم کیوایم اراکین اسمبلی اور کارکنوں نے وزیراعلیٰ ہاوس،اسٹار گیٹ اور لیاقت آباد سمیت مختلف مقامات پر دھرنا دیا گیا تھا۔
شہر میں دھرنے ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ایم کیوایم کے رکن صوبائی اسمبلی فیصل سبزواری کا کہنا تھا کہ متحدہ قومی موومنٹ پرامن جماعت ہے ۔۔ اور اس نے ہمیشہ قانون کا احترام کیا ہے ۔۔
اس سے قبل وزیراعلیٰ ہاؤس کے باہر بطور احتجاج دھرنا دینے والے مظاہرین سے ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے آج علی الصبح خطاب کیا۔انہوں نے کہا کہ رینجرز حکام نے مذاکرات کے بعد پندرہ میں نصف سے زائد کارکنوں کو رہا کرنیکا فیصلہ کیا ہے،جبکہ باقی کارکنوں کو بھی قانونی تقاضے پورے ہونے کے بعد رہا کردیا جائے گا جس کے بعد دھرنے ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اپنے خطاب میں انہوں نے مطالبہ کیا کہ سیکٹر آفس پر چھاپے میں ملؤث رینجرز اہلکاروں کو برطرف کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ عسکری ونگ تمام سیاسی جماعتوں میں موجود ہیں، لیکن رینجرز کی جانب سے صرف ایم کیو ایم کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ رات کراچی کے علاقے ابوالحسن اصفہانی روڈ پر واقع ایم کیو ایم سیکٹر آفس پر چھاپا مار کر تیس سے زائد کارکنوں کو گرفتار کرلیا تھا۔
وزیر اعلی سندھ نے 6رکنی کمیٹی بنا دی
سندھ کے وزیر اعلی سید قائم علی شاہ نے ایم کیو ایم کے کارکنوں کی گرفتاری سے متعلق معاملے کو حل کرنے کے چھ رکنی کمیٹی بنادی۔ وزیر اعلی کی قائم کردہ کمیٹی میں سکندر میندرو، نثار کھوڑو، وقار مہدی، راشد ربانی اور مولا بخش چانڈیو شامل ہیں۔ کمیٹی کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ جلد سے جلد معاملے کو حل کرکے قائم علی شاہ کو رپورٹ پیش کریں۔
دھرنے میں بیٹھے ہوئے کارکنان سے خطاب اور صحافیوں سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ دلوں میں جو نفرت چھپی تھی کل سامنے آگئی، کراچی چلتا ہے تو ملک چلتا ہےمتحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینیئر خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ اگر کارکنان کی گرفتاری کا سلسلہ بند نہ ہوا تو کراچی میں جاری دھرنے نئے صوبوں کے قیام کے مطالبے کے دھرنے بن سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مسائل کا واحد حل 20صوبوں کا قیام ہے،ملک میں صوبے لسانیت کی بنیاد پر قائم ہیں، 20کروڑ عوام کے لیے کم از کم 20صوبے ہونے چاہیئں۔ خالد مقبول صدیقی کا دعویٰ تھا کہ الطاف حسین کی تجویز کے مطابق 20انتظامی یونٹس کے قیام سے لسانیت کا خاتمہ ہوگا اور جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کے ساتھ ’اقتدار مافیا‘ بھی کمزور ہو گی۔
ان نو مقامات میں گلشنِ اقبال، نمائش، لیاقت آباد، رضویہ، لانڈھی، شاہراہ فیصل، گرومندر، ناگن چورنگی اور وزیراعلیٰ ہاوس شامل ہیں۔ایم کیو ایم نے کارکنوں کی گرفتاریوں کے خلاف کراچی شہر میں دھرنے کے لیے نو مقامات کا انتخاب کیا ہے۔
کراچی شہر میں ایم کیو ایم کے دھرنوں کے بعد پرائیوٹ اسکول منیجمنٹ نے تمام اسکول بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نجی اسکولز منیجمنٹ کے سربراہ شرف الزماں نے ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا ہے صبح کے وقت شہر کے تمام اسکولز کھل گئے تھے،تاہم ٹریفک جام اور شہر کے مختلف علاقوں میں حالات کے کشیدہ ہونے کی وجہ سے بہت سے تعلیمی اداروں کو اسکول انتظامیہ نے خود بند کردیا۔ دوسری جانب جامعہ کراچی کے تحت ہونے والے تمام پرچے بھی ملتوی کردیے گئے ہیں۔
دوسری جانب ایم کیو ایم کا کہنا ہے جس وقت رینجرز نے سیکٹر آفسر پر چھاپہ مارا، وہاں جنرل ورکرز کا ایک اجلاس جاری تھا۔اس واقعہ کے بعد ان کارکنان کے اہلِ خانہ بطور احتجاج وزیراعلیٰ ہاوس کے سامنے اکھٹا ہوگئے تھے۔ اس واقعہ کے بعد جمعرات کی صبح وزیراعلیٰ ہاؤس کے باہر مظاہرین سے خطاب میں الطاف حسین نے کارکنوں کی گرفتاری پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایم کیوایم کے پُرامن کارکنوں بلاجواز گرفتار کیا جا رہا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ آج ملک میں لاقانونیت کا راج ہے جس کی وجہ سے یہ واقعات جنم لے رہے ہیں۔ انہوں نے مہاجر دشمنی کے خلاف آج سے کراچی بھر میں دھرنے دینے کا اعلان کیا اور کہا کہ شہر کے حق پرست عوام بہادری سے اپنے حقوق کے لیے لڑتے رہیں گے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ‘بڑے شیطان’ نے کراچی میں امن کی عدالت لگائی اور ایم کیو ایم کے اوپر عدالت پر قبضہ کرنے کا الزام لگا دیا۔ انہوں نے سوال کیا کہ آخر وہ کون سے عناصر ہیں جو شہر کا امن خراب کررہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا جب رینجرز نے آپریشن شروع کیا تو ہم نے اس کی حمایت کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ خود عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں میں عسکری ونگ موجود ہیں، پھر متحدہ میں ہی کیوں عسکری ونگ کو تلاش کیا جارہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میڈیا میں بھی کچھ عناصر موجود ہیں جو ایم کیو ایم کے خلاف پروپیگنڈہ کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گلشن معمار میں سیکٹر آفسر پر چھاپے کے بعد ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا ہے۔ الطاف حسین کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ سندھ سے اس واقعہ کے بعد رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن تین گھنٹے سے رابطہ نہیں ہوسکا۔ ایم کیو ایم کے قائد نے خبر دار کیا کہ رینجرز اب تیاری کرلے اور جتنے چھاپے مارنے ہیں مارلے۔ انہوں نے کہا کہ جب لاہور اور اسلام آباد میں دھرنے ہوسکتے ہیں تو کراچی میں کیوں نہیں۔ اس سے قبل رات گئے ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کی جانب سے ایک اعلامیہ جاری کیا گیا تھا جس کے مطابق چھاپے کے وقت 500 سے زائد کارکنان و ذمہ داران کے ساتھ خواتین کی بھی بڑی تعداد اس اجلاس میں شریک تھی۔ رابطہ کمیٹی کے مطابق صوبائی وزیر فیصل سبزواری، رکن قومی اسمبلی مزمل قریشی اور اراکین رابطہ کمیٹی کو چھاپے کے دوران دفتر میں داخل ہونے سے روکا گیا۔
گلشنِ معمار میں سیکٹر آفس پر رینجرز کے چھاپے اور گرفتاریوں کے خلاف ایم کیو ایم نے آج ہونے والے سندھ اسمبلی کے اجلاس سے بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ایم کیو ایم رہنما خواجہ اظہار الحسن نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی نے پہلے فیصلہ کیا تھا کہ وہ کارکنان کی گرفتاریوں کے معاملے کو سندھ اسمبلی کے ایوان میں اٹھائے گی، لیکن بعد میں اس اجلاس کی کارروائی کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ دوسری جانب بدھ کی رات کو حراست میں لیے جانے والے تیس سے کارکنوں میں سے رینجرز نے آٹھ کو رہا کردیا، تاہم اب بھی متعدد کارکن زیرِ حراست ہیں جس کے خلاف کراچی بھر میں دھرنے دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ایم کیو ایم کی جانب سے شہر کے نو مقامات پر دھرنوں کے فیصلے کے بعد انتظامی طور پر تیاریاں شروع کردی گئی ہیں، جس کے باعث کچھ اہم شاہراہوں پر ٹریفک جام ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ ایم کیو ایم ذرائع کا کہنا ہے کہ نمائش چورنگی پر دھرنے کی وجہ سے شہر کی مرکزی شاہراہ ایم اے جناح روڈ پر ٹریفک جام ہے، جس سے شہریوں کو سخت مشکالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ متحدہ کے کارکنوں کی گرفتاری کے بارے میں رینجرز سے وضاحت طلب کرلی ہے۔وزیراطلاعات سندھ شرجیل میمن نے کہا ہےکہ گزشتہ رات گلشن معمار میں رینجرز کی کارروائی کے بعد ایم کیو ایم سے رابطے میں ہیں اور امید ہے جلد معاملہ حل ہوجائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ کوشش ہے معاملے کو بات چیت کی میز پر لاکر حل کیا جائے۔
وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے متحدہ کے رہنماؤں سے رابطہ کرکے گزشتہ رات سیکٹر آف پر رینجرز کے چھاپے اور کارکنان کی گرفتاری پر افسوس کا اظہار کیا۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم سندھ میں پیپلز پارٹی کی ایک اتحادی جماعت ہے اور اس کے خلاف اس طرح کی کارروائی ناقبلِ قبول ہے۔
سندھ کے وزیر اعلی سید قائم علی شاہ نے ایم کیو ایم کے کارکنوں کی گرفتاری سے متعلق معاملے کو حل کرنے کے چھ رکنی کمیٹی بنادی۔ وزیر اعلی کی قائم کردہ کمیٹی میں سکندر میندرو، نثار کھوڑو، وقار مہدی، راشد ربانی اور مولا بخش چانڈیو شامل ہیں۔ کمیٹی کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ جلد سے جلد معاملے کو حل کرکے قائم علی شاہ کو رپورٹ پیش کریں۔
کارکنان کی گرفتاری پر متحدہ کا احتجاج،نئے صوبوں کا مطالبہ
دھرنے میں بیٹھے ہوئے کارکنان سے خطاب اور صحافیوں سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ دلوں میں جو نفرت چھپی تھی کل سامنے آگئی، کراچی چلتا ہے تو ملک چلتا ہےمتحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینیئر خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ اگر کارکنان کی گرفتاری کا سلسلہ بند نہ ہوا تو کراچی میں جاری دھرنے نئے صوبوں کے قیام کے مطالبے کے دھرنے بن سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مسائل کا واحد حل 20صوبوں کا قیام ہے،ملک میں صوبے لسانیت کی بنیاد پر قائم ہیں، 20کروڑ عوام کے لیے کم از کم 20صوبے ہونے چاہیئں۔ خالد مقبول صدیقی کا دعویٰ تھا کہ الطاف حسین کی تجویز کے مطابق 20انتظامی یونٹس کے قیام سے لسانیت کا خاتمہ ہوگا اور جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کے ساتھ ’اقتدار مافیا‘ بھی کمزور ہو گی۔
دھرنے کے لیے نو مقامات کا انتخاب
ان نو مقامات میں گلشنِ اقبال، نمائش، لیاقت آباد، رضویہ، لانڈھی، شاہراہ فیصل، گرومندر، ناگن چورنگی اور وزیراعلیٰ ہاوس شامل ہیں۔ایم کیو ایم نے کارکنوں کی گرفتاریوں کے خلاف کراچی شہر میں دھرنے کے لیے نو مقامات کا انتخاب کیا ہے۔
نجی تعلیمی ادارے بند کرنے کا فیصلہ
کراچی شہر میں ایم کیو ایم کے دھرنوں کے بعد پرائیوٹ اسکول منیجمنٹ نے تمام اسکول بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نجی اسکولز منیجمنٹ کے سربراہ شرف الزماں نے ڈان نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا ہے صبح کے وقت شہر کے تمام اسکولز کھل گئے تھے،تاہم ٹریفک جام اور شہر کے مختلف علاقوں میں حالات کے کشیدہ ہونے کی وجہ سے بہت سے تعلیمی اداروں کو اسکول انتظامیہ نے خود بند کردیا۔ دوسری جانب جامعہ کراچی کے تحت ہونے والے تمام پرچے بھی ملتوی کردیے گئے ہیں۔
دوسری جانب ایم کیو ایم کا کہنا ہے جس وقت رینجرز نے سیکٹر آفسر پر چھاپہ مارا، وہاں جنرل ورکرز کا ایک اجلاس جاری تھا۔اس واقعہ کے بعد ان کارکنان کے اہلِ خانہ بطور احتجاج وزیراعلیٰ ہاوس کے سامنے اکھٹا ہوگئے تھے۔ اس واقعہ کے بعد جمعرات کی صبح وزیراعلیٰ ہاؤس کے باہر مظاہرین سے خطاب میں الطاف حسین نے کارکنوں کی گرفتاری پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایم کیوایم کے پُرامن کارکنوں بلاجواز گرفتار کیا جا رہا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ آج ملک میں لاقانونیت کا راج ہے جس کی وجہ سے یہ واقعات جنم لے رہے ہیں۔ انہوں نے مہاجر دشمنی کے خلاف آج سے کراچی بھر میں دھرنے دینے کا اعلان کیا اور کہا کہ شہر کے حق پرست عوام بہادری سے اپنے حقوق کے لیے لڑتے رہیں گے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ‘بڑے شیطان’ نے کراچی میں امن کی عدالت لگائی اور ایم کیو ایم کے اوپر عدالت پر قبضہ کرنے کا الزام لگا دیا۔ انہوں نے سوال کیا کہ آخر وہ کون سے عناصر ہیں جو شہر کا امن خراب کررہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا جب رینجرز نے آپریشن شروع کیا تو ہم نے اس کی حمایت کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ خود عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں میں عسکری ونگ موجود ہیں، پھر متحدہ میں ہی کیوں عسکری ونگ کو تلاش کیا جارہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میڈیا میں بھی کچھ عناصر موجود ہیں جو ایم کیو ایم کے خلاف پروپیگنڈہ کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گلشن معمار میں سیکٹر آفسر پر چھاپے کے بعد ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا ہے۔ الطاف حسین کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ سندھ سے اس واقعہ کے بعد رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن تین گھنٹے سے رابطہ نہیں ہوسکا۔ ایم کیو ایم کے قائد نے خبر دار کیا کہ رینجرز اب تیاری کرلے اور جتنے چھاپے مارنے ہیں مارلے۔ انہوں نے کہا کہ جب لاہور اور اسلام آباد میں دھرنے ہوسکتے ہیں تو کراچی میں کیوں نہیں۔ اس سے قبل رات گئے ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کی جانب سے ایک اعلامیہ جاری کیا گیا تھا جس کے مطابق چھاپے کے وقت 500 سے زائد کارکنان و ذمہ داران کے ساتھ خواتین کی بھی بڑی تعداد اس اجلاس میں شریک تھی۔ رابطہ کمیٹی کے مطابق صوبائی وزیر فیصل سبزواری، رکن قومی اسمبلی مزمل قریشی اور اراکین رابطہ کمیٹی کو چھاپے کے دوران دفتر میں داخل ہونے سے روکا گیا۔
ایم کیو ایم کا سندھ اسمبلی اجلاس کے بائیکاٹ کا فیصلہ
گلشنِ معمار میں سیکٹر آفس پر رینجرز کے چھاپے اور گرفتاریوں کے خلاف ایم کیو ایم نے آج ہونے والے سندھ اسمبلی کے اجلاس سے بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ایم کیو ایم رہنما خواجہ اظہار الحسن نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی نے پہلے فیصلہ کیا تھا کہ وہ کارکنان کی گرفتاریوں کے معاملے کو سندھ اسمبلی کے ایوان میں اٹھائے گی، لیکن بعد میں اس اجلاس کی کارروائی کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ دوسری جانب بدھ کی رات کو حراست میں لیے جانے والے تیس سے کارکنوں میں سے رینجرز نے آٹھ کو رہا کردیا، تاہم اب بھی متعدد کارکن زیرِ حراست ہیں جس کے خلاف کراچی بھر میں دھرنے دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
کراچی کی مختلف شاہراہوں پر ٹریفک جام
ایم کیو ایم کی جانب سے شہر کے نو مقامات پر دھرنوں کے فیصلے کے بعد انتظامی طور پر تیاریاں شروع کردی گئی ہیں، جس کے باعث کچھ اہم شاہراہوں پر ٹریفک جام ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ ایم کیو ایم ذرائع کا کہنا ہے کہ نمائش چورنگی پر دھرنے کی وجہ سے شہر کی مرکزی شاہراہ ایم اے جناح روڈ پر ٹریفک جام ہے، جس سے شہریوں کو سخت مشکالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ایم کیو ایم سے رابطے میں ہیں، جلد معاملہ حل ہوجائے گا، شرجیل میمن
میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ متحدہ کے کارکنوں کی گرفتاری کے بارے میں رینجرز سے وضاحت طلب کرلی ہے۔وزیراطلاعات سندھ شرجیل میمن نے کہا ہےکہ گزشتہ رات گلشن معمار میں رینجرز کی کارروائی کے بعد ایم کیو ایم سے رابطے میں ہیں اور امید ہے جلد معاملہ حل ہوجائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ کوشش ہے معاملے کو بات چیت کی میز پر لاکر حل کیا جائے۔
وزیراعلیٰ سندھ کا ایم کیو ایم سے رابطہ
وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے متحدہ کے رہنماؤں سے رابطہ کرکے گزشتہ رات سیکٹر آف پر رینجرز کے چھاپے اور کارکنان کی گرفتاری پر افسوس کا اظہار کیا۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم سندھ میں پیپلز پارٹی کی ایک اتحادی جماعت ہے اور اس کے خلاف اس طرح کی کارروائی ناقبلِ قبول ہے۔