|

وقتِ اشاعت :   September 26 – 2014

shabirیہ میری روزانہ کی گزر گاہ ہے جب میں معمول کے مطابق شام کے وقت اپنے دوست سے ملنے اسکے پاس چلا جاتا ہوں۔ بروری روڑ پر واقع بی ایم سی مین ہاسٹل وہ بھی رشید ی ہوٹل کے قریب واقع ہونے کی وجہ سے اسکی خوبصورتی میں مزید اضافہ کرتا ہے۔ رشیدی ہوٹل اور بی ایم سی ہاسٹل کا پرانا رشتہ ہے جہاں ہاسٹل میں رہائش پذیر ڈاکٹروں کے ساتھ ساتھ آؤٹ سائیڈر بھی اس ہوٹل کے کھانے اور چائے سے لطف اندوز ہوئے بغیر نہیں رہ پاتے۔جہاں رشید بھائی کے ہاتھوں سے بنا ہوا چائے کا اپنا لطف ہے رشید بھائی خود تو شوگر کا مریض ہونے کی وجہ سے چائے کا ذائقہ لینے سے محروم ہیں لیکن اسکے بنے ہوئے چائے سے دن بھر کا تھکا ہارا طالبعلم اپنے دماغ کو تسکین پہنچانے کے لئے رشیدی ہوٹل کا رخ ضرور کرتا ہے۔ رشیدی ہوٹل سے تھوڑا آگے اور گولیمار چوک سے پہلے بی ایم سی کا مین ہاسٹل واقع ہے۔ یہ ہاسٹل اپنی اس خوبی کی وجہ سے کافی مشہور ہے کہ اس ہاسٹل میں زمانے کے نامی و گرامی ڈاکٹرز طالبعلمی کے زمانے میں اپنا وقت گزارچکے ہیں اور اس ہاسٹل سے بڑی تعداد میں فارغ التحصیل ڈاکٹرز کی یادیں وابستہ ہیں اور اس ہاسٹل کی سب سے بڑی خوبصورتی ڈاکٹر اللہ نذر لائبریری ہے۔ میری گزرگاہ پر واقع یہ لائبریری مجھے بہت ہی پرکشش لگتی ہے کیونکہ یہ لائبریری اپنی گنجائش سے زیادہ طلباء کو مطالعہ کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ لائبریری سے باہر رکھے ہوئے چپلوں کی تعداد ہی خود اس لائبریری میں موجود مطالعے کے شوقین طلباء کی علم تشنگی کو ظاہر کرتی ہے۔ جہاں کرسی اور میز کی سہولت نہ ملنے کیوجہ سے زیادہ تر طلباء فرش پر ہی بیٹھ کر مطالعہ کرتے ہیں لائبریری کی رونق 24گھنٹے برقرار رہتی ہے۔ سیشن وائیز طلباء چلے جاتے ہیں اور نئے آنے والے طلباء انکی جگہ لے لیتے ہیں۔ بہت ہی پیارا سا ماحول لگتا ہے۔ لائبریری میں چونکہ کتابیں ہوتیں نہیں لیکن طلباء اسے مطالعے کا بہترین ذریعہ سمجھتے ہوئے اسکی خوبصورتی کو برقرار رکھنے میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ لائبریری میں مطالعہ کرنے والے زیادہ تر تعداد ان لڑکوں کی ہے جو پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں لیکن علم حاصل کرنے کی شوق نے انہیں پسماندہ علاقوں سے یہاں تک لانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ جنہیں نہ صرف اپنے مستقبل کی فکر لگی رہتی ہے بلکہ وہ سوسائٹی میں اعلیٰ مقام حاصل کرنے اور اپنی خدمات انجام دینے کے لئے کوئٹہ کا رخ کر تے ہیں جہاں انکا زیادہ تر وقت انہی لائبریریوں میں گزرتا ہے۔ ان میں زیادہ تر مطالعہ کرنے والوں کا تعلق غریب گھرانوں سے ہے جو تعلیم کی حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ جنہیں نہ صرف اپنے خاندان کو ایک نیامقام بخشنا ہے بلکہ اسکے ساتھ ساتھ نوجوان نسل کو بھی درست سمت فراہم کرنا ہے۔ کوئٹہ میں اسکے علاوہ ایک لائبریری اسپنی روڑ پر واقع ہے جبکہ تیسری لائبریری جناح روڑ پر واقع ہے۔ بلوچستان یونیورسٹی میں بھی ایک لائبریری طلباء کے مطالعے کے لئے بنائی گئی ہے۔ لیکن یہ تمام لائبریریاں بہت ہی محدود پیمانے پر تعمیر کی گئی ہیں جن میں مطالعہ کے شوقین لوگوں کے لئے گنجائش بہت کم ہے اور وہ اپنا سیٹ حاصل کرنے کے لئے لائبریری انچارج اور لائبریری کھلنے سے پہلے پہنچ جاتے ہیں۔ زیادہ تر مطالعہ کرنے والے نوجوان سی ایس ایس یا پی سی ایس کی تیاری کے لئے ان لائبریریوں کا رخ کر تے ہیں۔ جوں جوں وقت گزرتا چلا جارہا ہے مطالعے کے شوقین افراد کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اور دور دراز علاقوں سے نوجوانوں کی بڑی تعداد کوئٹہ شہر کا رخ صرف اسی وجہ سے کرتے ہیں تا کہ وہ زیورعلم سے بہرہ ور ہو سکیں۔ لیکن دوسری جانب ہمیں یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ نوجوانوں کی یہ تعداد اپنے علاقوں میں تعلیمی سہولیات کی فقدان اور دیگر مسائل کی وجہ سے کوئٹہ یا کراچی کا رخ کرتے ہیں۔ مگر ہمارے ادارے اتنے خستہ حال ہو چکے ہیں کہ ان طلباء کی حوصلہ افزائی کے لئے کوئی خاطر خواہ اقدامات اٹھا نہیں سکتے۔مطالعہ اس دور میں ایک قیمتی سرمایہ سمجھا جاتاہے اور بالخصوص دور دراز کے علاقوں سے آئے ہوئے یہ نوجوان نسل اپنی مدد آپ کے تحت حصول علم کے لئے دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ ایک ایسے موقع پر جب ہمارے اداروں پر تالے لگ چکے ہیں۔ جہاں فرسودہ نظام نے جنم لیا ہے۔ جہاں تعلیم حاصل کرنا ایک جہاد کے برابر ہے لیکن بلوچستان کے دور دراز اور پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھنے والے ان نوجوانوں کی علمی صلاحیتیں اور کوششیں قابل دید ہیں۔ پاکستان میں اس وقت مڈل کلاس، لوئیر کلاس اور اسٹینڈرڈ طبقے کے لئے تعلیم کا جداگانہ نظام پایا جاتا ہے۔ اگر بلوچستان میں تعلیمی نظام کی صورتحال کا جائزہ لیں تو یہاں تعلیمی شعبہ جات انتہائی خستہ حالی کا شکار ہو چکے ہیں۔ جہاں پرائیوٹ سیکٹر کا concept بہت کم پایا جاتا ہے۔ اور اگر پایا بھی جاتا ہے تو بھی بلوچستان کے موجودہ صورتحال میں انکا کردار مزید محدود ہو گیا ہے۔ اگر سرکاری اسکولوں پر نظر دوڑائی جائے تو ان اداروں میں اول تو اساتذہ اپنی حاضری لگانا مناسب نہیں سمجھتے لیکن اگر لگانا چاہیں بھی تو انکی تعلیمی معیار انتہائی نچلی سطح کی ہے جو معیاری تعلیم طلباء کو نہیں دے سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال نقل کا رجحان بڑھتا چلا جا رہا ہے اور نقل کے اس رجحان نے ہمارے تعلیمی نظام، اداروں کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیم کو پسماندہ علاقوں کی دہلیز تک پہنچانے اور وہاں لائبریریوں کے قیام کو یقینی بنانے کے لئے موجودہ حکومت اپنے زیادہ تر وسائل بروئے کار لائے اور ان وسائل کی منصفانہ تقسیم اور تعلیم کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے خرچ کیے جائیں تاکہ پسماندہ علاقوں میں بہتر تعلیمی نظام کی فراہمی ممکن ہوسکے۔