فیصل آباد : پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل(پی ایم ڈی سی) نے میڈیکل کالجز میں میرٹ پر داخلہ پالیسی کو ختم کرکے پچاس فیصد نشستیں لڑکوں اور دیگر پچاس فیصد لڑکیوں کے لیے مختص کردی ہیں۔
پی ایم ڈی سی نے اس حوالے سے ایک نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے چاروں صوبوں کے سیکرٹریز صحت اور نیشنل ہیلتھ سروسز ریگولیشن و کوآرڈنیشن کے سیکرٹری کو اس فیصلے سے آگاہ کیا ہے۔
نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ چار فروری کو ایک اجلاس میں کونسل میں یہ بات زیربحث آئی تھی کہ لڑکیاں طب کی تعلیم حاصل کرکے اس پیشے کو چھوڑ دیتی ہیں۔
اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ نصف نشستیں لڑکوں جبکہ باقی پچاس فیصد لڑکیوں کے لیے رکھی جائیں۔
نوٹیفکیشن میں کالجوں سے کہا گیا ہے کہ وہ ان دو کیٹیگریز میں میرٹ پر داخلہ دیں۔
نوٹیفکیشن کے مطابق”اس فیصلے کا اطلاق انڈر گریجوٹ سرکاری اور نجی شعبے کے میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں پر 2014-15 کے نئے سال کے داخلوں کے موقع پر ہوگا، تاہم جو کالجز صرف لڑکیوں کے لیے مخصوص ہیں وہاں اس کا اطلاق نہیں ہوگا”۔
ڈاکٹرز کی مختلف ایسوسی ایشنز نے میڈیکل کالجز میں داخلے کے لیے کوٹہ سسٹم کے اطلاق کا مطالبہ اس حقیقت کے بعدک یا تھا کہ لڑکیوں کی اکثریت میڈیکل ڈگری حاصل کرکے مختلف وجوہات کی بناءپر اس پیشے کا حصہ نہیں بنتیں۔
پی ایم ڈی سی فیصل آباد کے سیکرٹری ڈاکٹر محمد افراد نے اس فیصلے کو سراہا تاہم ان کا کہنا تھا کہ تنظیم نے چند ماہ قبل ہی میرٹ پر داخلہ پالیسی کا اعلان کیا تھا۔
انہوں نے حکومت کو تجویز دی کہ وہ نئی پالیسی پر عملدرآمد آئندہ سال سے کرائے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت اس بات کو لازمی بنائے کہ لڑکیاں گریجویشن کے بعد طبی مراکز میں کام کریں۔
ذرائع نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ حکومت اس نئی پالیسی پر عملدرآمد کرانے میں ناکام ہوجائے گی کیونکہ کچھ افراد اسے عدالت میں چیلنج کرسکتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق حکومت ڈاکٹروں کو ملازمت کے لیے بیرون ملک جانے سے روک سکتی ہے۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر بیشتر لڑکیاں ڈگری کے بعد اس پروفیشن میں نہیں آتی وہیں دوسری جانب ہر سال پرکشش معاوضے پر بیرون ملک چلے جانے والے لڑکوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ حکومت لوگوں کو آگاہ کرے کہ نئی پالیسی کو ورکنگ ڈاکٹرز کی مضبوطی کے لیے متعارف کرایا ہے اور میڈیکل کالجز میں لڑکیوں کے داخلے پر پابندی نہیں لگائی گئی ہے۔
اگرچہ پی ایم ڈی سی کا فیصلہ طالبات کے حقوق کے خلاف ہے تاہم کچھ لیڈی ڈاکٹرز نے بھی اس کا خیرمقدم کیا ہے۔
پنجاب میڈیکل کالج میں چائلڈ اسپیشلسٹ ڈاکٹر سمیرا کا کہنا ہے کہ اس وقت میڈیکل کالجز کی ستر فیصد نشستیں لڑکیوں کے پاس ہیں مگر یہ بات دیکھی گئی ہے کہ بیشتر طالبات نے گریجویشن کے بعد اس پیشے کا انتخاب نہیں کیا۔
انہوں نے کہا”حکومت میڈیکل کالجز پر بہت زیادہ فنڈز خرچ کرتی ہے مگر اس رجحان کے باعث یہ فنڈز ضائع چلے جاتے ہیں جبکہ قوم کو ڈاکٹروں کی قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے”۔
میڈیکل ٹیچرز ایسوسی ایشن فیصل آباد کے سیکرٹری ڈاکٹر کرم سہیل راجا نے کہا کہ ملک کو اس وقت ڈاکٹروں کی شدید کمی کا سامنا ہے خاص طور پر دیہی علاقوں میں، جہاں بنیادی طبی مراکز، دیہی ہیلتھ سینٹرز اور تحصیل ہیڈکوارٹرز ہسپتالوں میں متعدد اسامیاں خالی پڑی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ لڑکے گریجویشن کے بعد ملازمت میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں تاہم وہ اوپن میرٹ داخلہ پالیسی کے باعث ایڈمیشن لینے میں ناکام رہتے ہیں۔