|

وقتِ اشاعت :   September 27 – 2014

آئے دن ملک میں احتجاج ہوتے رہتے ہیں لوگ اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتے رہتے ہیں پہلے یہ دھرنے اور احتجاج شائستہ طریقے پر کیے جاتے تھے اور اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا تھا کہ اس احتجاج سے عوام الناس کوتکلیف نہ ہو اور احتجاج ریکارڈ ہوجائے لیکن آج کل احتجاج کو اس وقت اہمیت ہی نہیں دی جاتی جب تک عوام الناس کو زیادہ سے زیادہ تکلیف نہ پہنچائی جائے ،سڑک بند نہ ہوجائے ،لوگ گھنٹوں ٹریفک جام میں نہ پھنس جائیں ،سکول کے چھوٹے چھوٹے بچے گھنٹوں ٹریفک جام میں پھنسے رہیں ۔ احتجاج کرنے ولے یا ان کے منتظمین اتنے خود غرض ہوگئے ہیں کہ اپنی اہمیت جتانے کے لئے ایسے طریقے اختیار کرتے ہیں کہ عوام الناس کوزیادہ سے زیادہ سزائیں دی جائیں۔ عمران خان باربار برطانوی وزیراعظم کے گھر کے باہر مظاہرے کا تذکرہ کرتے ہیں ۔ وائٹ ہاؤس کے باہر مظاہروں کا حال سا معین کو بتاتے رہتے ہیں ۔ عمران خان کے دھرنے اور مغربی ممالک میں مظاہروں اور احتجاج میں صرف شائستگی نا پید ہے ۔ عمران خان اور ڈاکٹر قادری دھرنا یا کراچی کے ایک ساتھ 10 دھرنے میں شائستگی کا عنصر غائب ہے ۔ ایم کیو ایم نے ایک ساتھ کراچی شہر کوپورا دن مفلوج رکھا۔ وجہ یہ کہ رینجرز نے ان کے 3 کارکنوں کو گرفتار کیا ۔ ایم کیو ایم نے کوئی قانونی راستہ اختیار نہیں کیا اور حکومت پر زبردست دباؤ ڈالنے کے لئے کراچی جیسے شہر میں دس مقامات پر دھرنے دئیے ۔ انہوں نے قانونی تقاضے پورے کرنے کی مہلت حکومت کو نہ دی اور حکم دیا کہ ان تمام گرفتار شدگان کو جو مجرم ہیں یانہیں ، بغیر تفتیش رہا کیا جائے ۔ ہوسکتا ہے ان میں بعض معصوم لوگ گرفتا ہوئے ہوں ۔ رینجرز کا مؤقف ہے کہ اس بلڈنگ سے رینجرز کے اہلکاروں پر فائرنگ ہوئی اس لئے رینجرز نے چھاپہ مارا اور بہت سے لوگوں کو گرفتار کیا ۔ ایم کیو ایم کا موقف ہے کہ اس دفتر میں ایک میٹنگ کے دوران چھاپہ مارا گیا ۔دفترکے اندر توڑ پھوڑ کی گئی ۔ ایم کیو ایم کا اپنا احتجاج جائز مگر اس نے کراچی کے عوام کو یرغمال بنایا ان کو تکلیف پہنچائی گوکہ ان کی شکایات حکومت کے خلاف تھیں ۔ عوام الناس کو کبھی یہ اعتراض نہیں ہوگا کہ احتجاج کرنے والے صرف حکومت کو نشانہ بنائیں اور ان کو کسی بھی وجہ سے تکلیف نہ پہنچائیں ۔ ایم کیو ایم حکومت سندھ کا حصہ ہے ۔ گزشتہ 13سال تک ایم کیو ایم وفاقی حکومت کے اقتدار میں شریک رہا ۔ وہ مقتدرہ کا حصہ ہے اور آئے دن الطاف حسین فوج کو اقتدار سنبھالنے کی دعوت دیتے رہتے ہیں اور یہ اعادہ کرتے رہتے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ ہیں اگر فوج اقتدارپر قبضہ کر لے ۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ پرویزمشرف کے دس سالہ حکمرانی میں ایم کیو ایم شریک اقتدار رہا ہے ۔ اب شاید اس کو اپنی اہمیت کم تر معلوم ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ سندھ کو تقسیم کرنے کی بات کررہاہے ۔ یہ بات تاریخی حقیقت ہے کہ پاکستان پانچ قوموں کا وفاق تھا ۔ مشرقی پاکستان الگ ہوگیا ۔اب اس میں بلوچ ، پختون ، سندھی اور پنجابی ہیں ۔ پاکستان کا قیام انہی اقوام کی تاریخی سرزمین پروجود میں آیا ہے ۔ اس میں کسی بھی لسانی گروہ کا کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اس میں ثقافتی اقلیتوں کا کوئی بڑا کردار نہیں ہے ۔ ظاہرہے یہ اختیار کسی کے پاس بھی نہیں ہے کہ وہ کسی قومی اکائی کو توڑئے ۔ بعض سیاسی پارٹیوں کا رویہ منصفانہ ہے کہ سرائیکی اور پوٹھورہار صوبے بنائے جائیں کیونکہ ان کی بھی اپنی تاریخی سرزمین ہے ، اپنی شناخت ہے ،وہ پنجابی اور پختون سے الگ ہیں ۔ ان دونوں کے لئے صوبے بن سکتے ہیں جس کا جواز موجود ہے لیکن دوسروں کیلئے نہیں کیونکہ انکی اپنی تاریخی سرزمین نہیں ہے ۔ان کی زبان اس سرزمین کی زبان گزشتہ ادوار میں نہیں رہی ۔ بلوچستان کا معاملہ اور ہے انگریز نے پہلے اور بعدمیں جنرل یحییٰ خان نے افغان مفتوحہ علاقے بلوچستان میں زبردستی شامل کیے تھے ۔ بلوچوں کا افغان مفتوحہ علاقوں پر کوئی دعویٰ نہیں ہے ان کو فاٹا کے ساتھ ملایا جائے اور جلد ملایا جائے ۔ اس کے بدلے میں ڈیرہ غازی خان ، جیکب آباد ،راجن پور اور بلوچستان کے دیگر تاریخی علاقے بلوچستان کو واپس کیے جائیں ۔ یہ بات ہر شخص کو معلوم ہے کہ پچاس فیصد سے زائد سندھ کی آبادی بلوچ ہے مگر بلوچوں نے سینکڑوں سال سے سندھ کی خدمت کی ہے اور اسکے لئے قربانیاں دیں ہیں مگربلوچوں کے لئے الگ یونٹ اور نہ ہی سندھ کی تقسیم کا مطالبہ کیا ۔