|

وقتِ اشاعت :   September 27 – 2014

لاہور : ویڈیو شیئرنگ ویب سائٹ یوٹیوب پر پابندی پاکستان میں تیسرے سال میں داخل ہورہی ہے تاہم وزارت انفارمیشن و ٹیکنالوجی نے الزام لگایا ہے کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے اس مسئلے کے حل کے لیے مناسب اقدامات نہیں کیے ہیں۔ سابق وززیراعظم راجہ پرویز اشرف سے لے کر موجودہ وزیر اطلاعات پرویز رشید تک، بار بار وعدے کیے گئے کہ”یوٹیوب سے پابندی جلد اٹھالی جائے گی” مگر زمینی حقیقت تو یہ ہے کہ نا تو پیپلزپارٹی اور نا ہی مسلم لیگ ن کی حکومت نے اس معاملے پر عملی اقدامات کیے ہیں۔ پی پی پی حکومت نے یوٹیوب پر پابندی ستمبر 2012 میں گستاخانہ مواد اپ لوڈ ہونے کے بعد عائد کی تھی،وہ لوگ جنھوں نے اس پابندی کے خلاف عدالت سے رجوع کیا اور اس عمل میں شامل کچھ عہدیداران کے خیال میں حکومت نے خود کو عدالتی احکامات کے پیچھے چھپا لیا ہے حالانکہ یہ اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس ویب سائٹ تک پاکستانی عوام کی رسائی کو یقینی بنائے۔ وزارت آئی ٹی کے ذرائع کے مطابق”آئی ٹی کی وزارت نے پی ٹی اے کو کئی بار ہدایات جاری کیں کہ وہ اس مسئلے کے حل کو پیش کرے، وزارت نے فلٹریشن سافٹ ویئر یا یہ معاملہ گوگل کے سامنے اٹھانے کی ہدایت کی تاکہ پاکستان میں یوٹیوب کی براﺅزنگ کے دوران گستاخانہ مواد تک رسائی روکی جاسکے”۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ پی ٹی اے کو یہ بھی کہا گیا کہ وہ ہندوستان اور ترکی کی مثالون پر عمل کرے”مگر ایسا نظر آتا ہے کہ کوئی بھی اس ذمہ داری کو اٹھانے کے لیے سنجیدہ نہیں”۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ آخر پی ٹی آے کیوں اب تک فلٹریشن سافٹ ویئر حاصل نہیں کرسکی تاکہ ہماری ضروریات کو پورا کیا جاسکے”اور آخر کیوں پارلیمانی کمیٹی جو اس معاملے کو مسلسل دیکھ رہی ہے کسی حل کے ساتھ سامنے کیوں نہیں آئی”۔ تاہم پی ٹی اے کے ذرائع نے یہ دعویٰ کیا کہ گوگل کو یہ درخواست کی گئی تھی کہ پاکستان کو یوٹیوب ویب سائٹ مقامی طور پر کنٹرول کرنے کا اختیار دیا جائے مگر اسے مسترد کردیا گیا، ہندوستان اور ترکی میں گوگل آپریٹ کررہا ہے مگر یہاں آپریٹنگ کے لیے وہ مخصوصی سیکیورٹیز مانگ رہا ہے جنھیں حکومت ماننے کے لیے تیار نہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ پی ٹ یاے نے حکومت کو مطلع کیا تھا کہ فلٹریشن سافٹ ویئر کی تنصیب ممکن ہے مگر وہ بہت مہنگا ہے”ٹیلی کام ریگولیٹری اتھارٹی اس معاملے پر ابھی تک حکومتی ردعمل کا انتظار کررہی ہے”۔ ذرائع نے کہا کہ درحقیقت حکومت اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے فلٹریشن سافٹ ویئر خریدنے کی خواہشمند نہیں”حکومت کا ماننا ہے کہ فلٹریشن سافٹ ویئر کے حصول کے لیے خرچ کیے جانے والے لاکھوں ڈالرز یوٹیوب پر سے پابندی اٹھنے کے بعد اس وقت ضائع ہوجائیں گے جب کوئی اور مسئلہ اٹھ کھڑا ہوگا، اس لیے حکومت محفوظ کھیل رہی ہے”۔ پی ٹی اے کے چیئرمین اسسمعیل شاہ نے یوٹیوب کے معاملے پر ڈان کے سوالات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ لاہور ہائیکورٹ میں اس پابندی کے خلاف درخواست دائر کرنے والے ایڈووکیٹ یاسر ہمدانی نے ڈان کو بتایا کہ حکومت خود کو سپریم کورٹ کے پیچھے چھپانے کی کوشش کررہی ہے تاکہ کوئی بھی اس معاملے سے نمٹنے کے لیے اس کی اہلیت پر آواز نہ اٹھاسکے۔ انہوں نے کہا”میں نے جسٹس جواد ایس خواجہ سے درخواست کی تھی کہ وہ سپریم کورٹ کے سترہ ستمبر 2012 کے عارضی حکم کی وضاحت کریں تاکہ حکومت اس کے پیچھے چھپ نہ سکے، ایک بار جب اس حکم کی وضاحت سامنے آجائے گی تو پوری ذمہ داری حکومت پر چلی جائے گی”۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت دانستہ طور پر اس مسئلے کے حل پر نااہلیت کا مظاہرہ کررہی ہے۔ مسئلے کے حل پر بات کرتے ہوئے یاسر ہمدانی نے کہا”فلٹریشن سافٹ ویئر اس مسئلے کا بہترین طویل المدت حل نہیں کیونکہ اس سے شہریوں کے حقوق کی خلاف ورزی کی جاسکتی ہے”۔ انہوں نے حکومت کو تجویز دی کہ وہ گوگل سے کم از کم پاکستان کے یوٹیوب صارفین کے لیے ‘وارننگ سافٹ ویئر’ انسٹال کرنے کی درخواست تو کرے تاکہ وہ گستاخانہ مواد سے خبردار رہ سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ پابندیاں فائدہ مند نہیں اور پاکستانیوں کے اطلاعات کے رسائی کے حقوق کی خلاف ورزی ہیں، جبکہ اس کے ذریعے ملک کے خلاف ہر قسم کے پروپگینڈا کا توڑ بھی کیا جاسکتا ہے۔