آثار قدیمہ کے عالمی ماہرین کا کہنا ہے کہ پیرو کے پہاڑی سلسلے کی نہایت بلند ترین سطح پر انہیں قدیم ترین انسانی بستیوں کے ٹھوس شواہد مل گئے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس دور میں انسان اتنی بلندی پر رہتا تھا، اس حقیقت پر یقین تو نہیں آتا، مگر جب ثبوت سامنے آئے تو یقین کرنا پڑا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دور میں انسان کے پاس موسم کی سختیوں سے بچنے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا، پھر بلندی پر آکسیجن کی کمی کا الگ سامنا ہوتا تھا۔ چناں چہ دور قدیم میں انسان نے پہاڑوں کے بجائے دریائوں اور سمندروں کے کنارے رہنے کو ترجیح دی تاکہ اس کی پانی اور آب پاشی کی ضرورت بھی پوری ہوسکے اور دریا یا سمندر کے پانی کو نقل وحمل کے لیے بھی استعمال کیا جاسکے۔ لیکن نہایت بلند پہاڑوں پر انسانی بستیاں سبھی کے لیے حیرت کا باعث ہیں۔
ماہرین کے مطابق یہ بستیاں ایسی چٹانی پناہ گاہوں میں واقع تھیں جہاں برفانی دور کے کیمپ فائر یا خیموں کے آثار بھی ملے ہیں جن کے گرد کسی دور میں آگ کے الائو روشن کیے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ اس مقام پر قدیم دور کے انسان کے ہاتھوں کے تراشے گئے چٹانی آرٹ کے نمونے بھی ملے ہیں۔ ایک بیرونی یا اوپن ایئر ورکشاپ میں چٹانی پتھروں کے ڈھیروں آلات و اوزار اور ہزاروں ٹکڑے بھی ملے ہیں، جہاں پتھروں سے آلات اور اوزار بنائے جاتے تھے۔ یہ تمام آثار اور نشانات اس پہاڑی سلسلے میں سطح سمندر سے لگ بھگ 14,700فٹ (4,500 میٹر) کی بلندی پر دریافت کیے گئے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ قدیم بستیوں کے یہ آثار ایک محتاط اندازے کے مطابق لگ بھگ 12,000سال قدیم ہیں۔
اس دریافت کی تفصیل 23اکتوبر کے جرنل سائنس کے شمارے میں شائع ہوئی ہے۔ اس میں ماہرین نے اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ انسان کے قدم 2000 سال پہلے جب پہلی بار اس براعظم پر پہنچے تو اس وقت قدیم انسان جنوبی امریکا میں پہلے ہی سے نہایت بلند ترین پہاڑی مقامات میں رہتے تھے۔ اب اس تحقیق اور اس کے نتائج سے یہ سوالات بھی اٹھ کھڑے ہوئے ہیں کہ ان ابتدائی آبادکاروں نے خود کو جسمانی طور پر اس ماحول سے کس طرح ہم آہنگ کیا تھا جہاں انہیں ایسا لگتا تھا جیسے ان کا بسیرا آسمانوں پر ہے۔ یہ بات اس تحقیقی ٹیم کے قائد کرٹ ریڈمیکر نے کہی جو یونی ورسٹی آف مین میں انتھروپولوجی کے وزیٹنگ اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ انہوں نے اس مطالعے کا اہتمام کرایا تھا۔
فالو اپ کام میں ٹیم نے یہ منصوبہ بنایا ہے کہ وہ ان قدیم ترین انسانی بستیوں کے حوالے سے مزید شواہد جمع کرے گی۔ مثال کے طور پر یہ انسانی باقیات بھی سرگرمی کے ساتھ تلاش کرے گی۔
٭ساحلی سراغ: ان بلند ترین سطحوں پر یہ شواہد کیسے ملے اور قدیم انسان کے ہاتھوں سے تیار کردہ آلات و اوزار کس طرح دریافت ہوئے، اس کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ دراصل 1990کے عشرے میں جو کام شروع ہوا تھا، اسی کے باعث موجودہ دریافت ممکن ہوسکی۔ اس وقت اس تحقیق کے قائد کرٹ ریڈمیکر اور ان کے ساتھی پیرو کے ساحلQuebrada Jaguay پر 13,000سال پرانی Paleoindianماہی گیروں کی ایک بستی کا تحقیقی مطالعہ کررہے تھے کہ وہاں انہیں کچھ آلات و اوزار ملے جو obsidian نامی ایک آتش فشانی چٹان کے پتھروں سے بنائے گئے تھے۔
وہاں قریب میں کوئی دریا بھی نہیں تھے اور نہ دوسری ایسی ارضیاتی قوتیں دکھائی دے رہی تھیں، جو ان چٹانی پتھروں کو ساحل تک لے آتیں، جب کہ قریب ترین آتش فشاں بھی انڈیز کے پہاڑی سلسلوں میں واقع تھے، یعنی کم و بیش 100میل (160کلومیٹر) دور تھے۔ یہ بات ریڈمیکر نے بتائی، جو جرمنی کی University of Tübingenمیں postdoctoralریسرچر ہیں۔ریڈ میکر نے مزید کہا:’’اس آتش فشانی پتھر obsidianنے ہمیں یہ بتایا کہ کسی زمانے میں Paleoindiansبلند ترین پہاڑی سلسلوں تک گئے تھے اور شاید وہیں مستقل طور پر بس گئے تھے۔‘‘
چناں چہ ریڈ میکر اور ان کے ساتھیوں نے اس آتش فشانی پتھر obsidian کا بھرپور طریقے سے جائزہ لیا اور پھر اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ پتھر Pucuncho Basinکے اطراف کے کسی مقام سے وہاں تک پہنچا ہے۔ Pucuncho Basinکیا ہے؟ اس کا جواب دیتے ہوئے ریڈمیکر نے بتایا کہ یہ ایک خشک، بے آب و گیاہ سرد سطح مرتفع ہے، جو 21,000فٹ یعنی 6,400 میٹر بلند آتش فشاں پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے۔
٭بلند ترین زندگی: اس سرد اور خشک سطح مرتفع کے اطراف میں کئی سال تک کی تلاش اور جستجو کے بعد آخر کار محققین نے ایک چٹانی پناہ گاہ تلاش کر ہی لی جس کے سامنے تھوڑا سا کھلا حصہ تھا اور اندر کی طرف دو بڑے ہال نما کمرے۔ ان کمروں کی چھتیں ایندھن کے جلنے سے پیدا ہونے والے دھوئیں کی وجہ سے سیاہ ہورہی تھیں اور دیواروں پر اس دور کے قدیم انسان نے اپنے آرٹ کے نمونے چھوڑے تھے، گویا ان دیواروں کو اس زمانے کے ہنر کے اعتبار سے سجایا گیا تھا۔
ان چٹانی دیواروں کو عمدگی سے تراشا بھی گیا تھا۔ اس مقام پر ایسے بھی نشان تھے جن سے معلوم ہوا کہ قدیم دور کا انسان یہاں آگ کے بڑے بڑے الائو روشن رکھتا تھا۔ ممکن ہے وہ سخت سردی سے بچنے کے لیے ایسا کرتا ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ یہ الاؤ اس لیے جلاتا ہو کہ وحشی پہاڑی جانور اس کے اور اس کی بستی کے قریب نہ آئیں۔ ان آثار کو دیکھ کر ایسا بھی لگا جیسے یہ کیمپ فائر کے طرز کی جگہ تھی۔
یہ چٹانی گھر یا پناہ گاہیں ہزاروں سال تک استعمال کی گئی تھیں جن کی شروعات لگ بھگ 12,400سال پہلے ہوئی تھی۔اس تحقیق کے قائد ریڈمیکر نے یہ بھی بتایا کہ ممکن ہے یہ جگہ قدیم دور کے انسانوں کے لیے ایک بیس کیمپ کی طرح استعمال کی جاتی ہو جہاں گلہ بانی کرنے والے اپنے جانوروں کو بارش سے بچانے کے لیے عارضی طور پر رکھتے ہوں اور بعد میں یہاں سے کہیں اور یا اپنے مطلوبہ مقام تک چلے جاتے ہوں۔
ماہرین نے یہ بھی بتایا کہ ساحلی پتھر obsidian نے ہماری راہ نمائی کی تو ہم ایک ایسی چھجے نما پہاڑی پر پہنچے جو اطراف کے پہاڑوں میں نمایاں دکھائی دے رہی تھی۔ وہاں ایک اوپن ایئر ورکشاپ دکھائی دی جو بلاشبہہ قدیم انسان کی مہارت کا ثبوت تھا اور وہاں چٹانی پتھروں سے یقینی طور پر آلات و اوزار اور ضرورت کی دوسری چیزیں بنائی جاتی ہوں گی۔ اس ورکشاپ میں ہزاروں کی تعداد میں قدیم آلات و اوزار رکھے تھے جن میں نوکیلے بھالے بھی تھے اور اسکریپرز بھی، دو نوکوں والے اوزار بھی تھے اور ہاتھ سے چلانے والےaxes بھی۔ ان میں سے کچھ لگ بھگ 12,800سال قدیم تھے۔
ماہرین کو وہاں ایک بڑے ممالیے کی ہڈیاں بھی ملیں، جو ان کے خیال میں vicuña نامی پہاڑی جانور کی تھیں اور یہ جانور انڈیز کے انہی پہاڑی سلسلوں میں پایا جاتا ہے۔ اس جانور کو ہم امریکی بھیڑalpaca کا جدامجد کہہ سکتے ہیں۔ اسی طرح یہاں اس دور کے قدیم جانوروں کے ڈھانچے بھی ملے جن میں guanaco(امریکی لاما) اور tarucaہرن شامل تھے۔ریڈمیکر کا کہنا ہے، لیکن محققین کی کافی کوشش کے بعد بھی یہ واضح نہیں ہوسکا کہ ساحل کے ساتھ رہنے والے لوگوں اور پہاڑوں کی بلندیوں پر رہنے والوں کا آپس میں کوئی تعلق تھا یا نہیں۔ یہ ایک ہی قوم تھے یا الگ الگ قبیلوں سے تعلق رکھتے تھے۔ کیا انہوں نے دور دراز فاصلوں کی موجودگی میں بھی آپس میں تجارتی نیٹ ورکس قائم کررکھے تھے یا ساحل پر آتش فشانی پتھر کا ملنا محض ایک اتفاق تھا۔
٭ابتدائی آباد کار: اس ریسرچ کے نتائج بتارہے ہیں کہ ان بلند ترین پہاڑی مقامات پر رہنے والے اس مدت سے بھی زیادہ عرصہ پہلے سے وہاں رہ رہے تھے جس کا پہلے اندازہ لگایا گیا تھا۔ مائیکل واٹرز ٹیکساس اور اے اینڈ ایم یونی ورسٹی کے کالج اسٹیشن میں ایک اینتھروپولوجسٹ ہے، وہ اس اسٹڈی میں شامل نہیں تھا، لیکن اس نے اس حوالے سے کہا:’’انسانی بستیاں اس علاقے میں برفانی دور کے اختتام پر قائم ہوئیں اور اسی دور میں لوگوں نے جسمانی طور خود کو اس علاقے کے موسم سے ہم آہنگ کیا تھا۔ اور یہ دور 12,400پہلے کا تھا۔ یہ لوگ کبھی ساحل کا رخ کرتے اور کبھی واپس بلندیوں پر آجاتے۔ اس مدت کے دوران یہ اسی طرح آنا جانا کرتے رہے۔‘‘
یونی ورسٹی آف اوکلاہوما کے ماہرآثار قدیمہ Bonnie Pitbladoنے جو اس اسٹڈی میں شامل نہیں تھے، اپنی رائے دیتے ہوئے کہا:’’جدید تہذیب و ثقافت کے لوگ بلند پہاڑی علاقوں کی آب و ہوا اور یہاں کے ماحول کو بہت معمولی اور گھٹیا سمجھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے سے پہلے لوگوں کی کہانیاں سنی ہیں کہ دشوارگزار پہاڑوں کی طرف جانے والے ان کی بلندیوں اور موسموں کے ہاتھوں جکڑے گئے اور جب کھانے کو کچھ نہ رہا تو انہوں نے ایک دوسرے کو کاٹ کاٹ کر کھالیا۔ یہ ایسی کہانیاں ہیں جن کی وجہ سے ان کی نظر میں پہاڑ نہ تو رہنے کے لائق ہیں اور نہ ہی وہاں رہنے والے انسان مہذب ہیں۔
لوگوں میں یہ خیال مسلسل پروان چڑھتا رہا کہ پہاڑ تو محض دیومالائی قسم کے خوف ناک عفریت ہیں جو اپنی طرف بڑھنے والے ہر انسان کو کھاجاتے ہیں۔ لیکن دنیا کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ قبل از تاریخ کا انسان پہاڑوں کی بہت قدر کرتا تھا۔ ان سے محبت کرتا تھا۔ اس کے خیال میں پہاڑ تو دنیا کے محافظ بھی ہیں اور انسانوں کے لیے وسائل اور ذرائع کی فراہمی کا بہت بڑا ذریعہ بھی۔ ان سے انسان کو بہت کچھ ملتا ہے، لیکن نادان انسان انہیں اپنا دشمن سمجھتا ہے اور اپنے منصوبوں کی راہ میں رکاوٹ گردانتا ہے۔
بلند پہاڑی مقامات سے گرم پانی کے چشمے بھی پھوٹتے ہیں اور یہاں برفانی یا منجمد غار بھی پائے جاتے ہیں۔ پہاڑوں پر گلیشیر بھی ہوتے ہیں جو پگھل کر چشموں، دریائوں اور جھرنوں کی صورت میں انسان کی بے شمار ضروریات پوری کرتے ہیں۔ اسی طرح چٹانیں اور چٹانی پتھر آلات و اوزار بنانے کے کام آتے ہیں۔ گویا پہاڑوں کا ہم پر احسان ہے کہ ہم ان کی وجہ سے نہ جانے کیا کیا فائدے اٹھارہے ہیں۔‘‘
اس تحقیق کے نتائج سامنے آنے کے بعد ایک سوال یہ اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ پہاڑوں کی بلندیوں پر رہنے والوں کو اپنے وجود برقرار رکھنے کے لیے آخر کس چیز کی ضرورت ہے؟ یہ بات طے ہے کہ ان بلندیوں پر ہوا زیادہ سرد اور پتلی ہوتی ہے جس کا مطلب یہ ہوا کہ اس میں کم بلندیوں کے مقابلے میں آکسیجن کی مقدار کم پائی جاتی ہے۔
چناں چہ ماضی کی اسٹڈیز سے یہ واضح ہوا ہے کہ بلند ترین مقامات پر رہنے والوں میں موسم اور ماحول سے مطابقت جینیاتی طور پر موجود ہوتی ہے۔ شاید اسی لیے وہ پہاڑوں کی ہوا میں سے آکسیجن کو بڑی مہارت اور عمدگی کے ساتھ حاصل کرکے استعمال کرلیتے ہیں۔ اسی لیے وہ دل کی بیماریوں اور اسٹروکس کے ساتھ ساتھ دیگر پہاڑی امراض سے بھی محفوظ رہتے ہیں۔لیکن موجودہ ریسرچ یہ خیال پیش کرتی ہے کہ یا تو ان بلند پہاڑوں پر رہنے والوں نے ہزاروں سال پہلے خود کو یہاں کے موسموں سے ہم آہنگ کرلیا تھا یا پھر ابتدائی آباد کاروں کے لیے تبدیلی کا یہ عمل اتنا ضروری نہیں تھا۔ بہرحال وجہ جو بھی ہو، لیکن یہ طے ہے کہ پہاڑوں پر رہنے والے انسان چاہے وہ آج کے دور کے ہوں یا دور قدیم کے بڑے مضبوط ہوتے ہیں اور وہ ہر طرح کے موسم اور ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔
بلند ترین پہاڑوں پر قدیم ترین انسانی بستیاں
وقتِ اشاعت : November 9 – 2014