|

وقتِ اشاعت :   November 9 – 2014

پچھلے ماہ بھارتی شہر‘ احمد آباد کا ایک انجینئر بجلی بنانے کی انوکھی تجویز سامنے لایا۔ وہ یہ کہ جن ریلوے اسٹیشنوں میں ریلوں کی آمدورفت مسلسل جاری رہتی ہے‘ وہاں پٹڑیوں کے قریب ہوائی چکیاں لگائی جائیں۔ریلیں آتے جاتے تیز ہوا چھوڑنے کی بدولت ان چکیوں کو رواں دواں رکھیں گی۔ اس طرح دن میں سیکڑوں کلو واٹ بجلی بن سکتی ہے۔ اب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا دفتر درج بالا تجویز کی خوبیوں و خامیوں کا جائزہ لے رہا ہے۔ پاکستان کے مانند بھارت بھی بجلی کی کمی کا شکار ہے۔ لیکن پاکستانی حکومت بنیادی طور پہ رکازی ایندھن یا فوسلز فیول( تیل‘ کوئلے اور گیس) سے بجلی بنانا چاہتی ہے۔ دوسری طرف بھارتی حکمران ایسے طریقوں کی کھوج میں بھی ہیں جن کے ذریعے رکازی ایندھن سے بجلی نہ بنانا پڑے۔ وجہ یہی کہ رکازی ایندھن نہ صرف ماحول آلودہ کرتے بلکہ کرہ ارض کا درجہ حرارت بھی بڑھا رہے ہیں۔آج دنیا بھر میں سائنسدان اور موجد ایسی ایجادات پر کام کر رہے ہیں جن کی مدد سے ایک گھر ہی نہیں بلکہ ایک فرد بھی بجلی کی ذاتی ضروریات میں خود کفیل ہو جائے۔ پچھلے چند برس میں سامنے آنے والی ایسی ہی کچھ حیرت انگیز ایجادات کا تذکرہ پیش خدمت ہے۔ چھوٹا سا بجلی گھر شاید آپ کو معلوم نہ ہو‘ انسان خود چھوٹا سا بجلی گھر ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ایک انسان روزانہ چلتے پھرتے اور کام کرتے اتنی توانائی پیدا کرتا ہے کہ اس سے ’’گیارہ ہزار واٹ‘‘ (11کلو واٹ) بجلی بن سکتی ہے۔ ایک عام انسان روزانہ 1 تا 3 ہزار واٹ بجلی استعمال کرتا ہے۔ گویا کوئی ایسا طریقہ دریافت ہو جائے جس کی مدد سے انسان خرچ ہونے والی اپنی جسمانی توانائی کو بجلی میں بدل سکے‘ تو  نہ صرف سرکاری بجلی پہ انحصار نہیں رہے گا بلکہ اُسے بجلی کے بھاری بھرکم بلوں سے بھی نجات مل جائے گی۔ انسان کی جسمانی توانائی سائنسی اصطلاح میں ’’پوٹینشل انرجی‘‘(Potential energy) کہلاتی ہے۔ اب ماہرین ’’پیزیوالیکٹرکسٹی‘‘(Piezoelectricity) سائنس کا سہارا لے کر ایسی ایجادات سامنے لا رہے ہیں جو پوٹیشنل انرجی کو بجلی میں بدل سکیں۔ دنیا میں موجود کئی فطری اور مصنوعی مادے دباؤ پڑنے پر پچک جاتے ہیں۔ تب مادے کی بالائی سطح پر منفی(نیگیٹو) جبکہ نچلی‘ پچکی ہوئی سطح پر مثبت(پازیٹیو) چارج (یا بار) جنم لیتا ہے۔ جب دباؤ ہٹایا جائے‘ تو درج بالا چارج کی وجہ سے مادے میں بجلی کا کرنٹ دوڑ جاتا ہے۔ اسی میکنیکل دباؤ سے پیدا ہونے والی بجلی پیزیوالیکٹرکسٹی کہلاتی ہے۔ مثال کے طور پر جب انسان ایک قدم اٹھائے تو اس کا پیر 1 واٹ بجلی پیدا کرتا ہے۔ گویا 24 انسان ایک قدم اٹھائیں تو پیروں میںجنم لینے والی بجلی سے  24 واٹ کا بلب ایک سیکنڈ کے لیے جل اٹھے گا۔ شرط یہ ہے کہ پیروں کے نیچے ایسا مادہ ہو جس میں اول دباؤ سے بجلی جنم لے اور دوم اس میں بجلی جمع کرنے کا نظام نصب ہو۔ لندن کا ’’کلب 4کلائمٹ‘‘ (Club 4 Climate)نامی ناچ کلب درج بالا ا صول پر عمل کرتے ہوئے ہی اپنی بجلی کی ’’60 فیصد‘‘ ضروریات پوری کر رہا ہے۔ کلب کا فرش اسپرنگوں سے بنا ہے۔ ان اسپرنگوں کے درمیان پچکنے والے ایسے مادے سے ننھے منے جنریٹر لگے ہیں جن میں کرنٹ دوڑپھر سکے۔ جب اس وسیع و عریض فرش پر سیکڑوں مردو وزن ناچتے تھرکتے اور اچھلتے ہیں تو یہ انسانی سرگرمی جنریٹر پچکا کر ان میں کرنٹ پیدا کرتی ہے۔ وہاں سے یہ کرنٹ تاروں کے ذریعے بیٹریاں تک جاتا ہے۔ اور بیٹریاں کلب کے بلبوں اور دیگر برقی آلات کو بجلی فراہم کرتی ہیں۔ یوں انسانوں کی توانائی وقوت سے وہ کلب بجلی کی اپنی بیشتر ضروریات پوری کرتا ہے۔ انسانی توانائی سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے ماہرین بجلی پیدا کرنے والے لباس بھی تیار کررہے ہیں۔ ان ملبوسات میں ننھی منی تاریں‘ جنریٹر اور لچک دار بیٹریاں نصب ہوں گی۔ یہ لباس پہن کر چلتے پھرتے  اور کام کاج کرتے اتنی بجلی ضرور پیدا ہو گی کہ وہ مختلف ذاتی برقی اشیاء مثلاً موبائل‘ لیپ ٹاپ‘ ریڈیو‘ شیور وغیرہ کو چارج کر دے۔ یاد رہے‘ اون اور سوت سے بنے لباس خصوصاً پیزیوالیکٹرک سٹی کی خصوصیت رکھتے ہیں۔ اسی لیے لباس کے دھاگے جب ایک دوسرے سے رگڑ کھائیں تو اکثر شرارے جنم لیتے اور پٹاخوں جیسی آواز نکالتے ہیں۔ ممکن ہے کہ مستقبل میں انسانوں کے علاوہ جانوروں مثلاً اونٹوں‘ گائے‘ بھینسوں اور گدھوں کو بھی بجلی پیدا کرنے والے ملبوسات پہنائے جائیں۔ یوں انسان کے زیر استعمال لاکھوں جانور روزانہ کئی میگاواٹ بجلی پیدا کر سکتے ہیں۔ (ایک میگاواٹ برابر1000کلوواٹ) جب کرہ ارض سے رکازی ایندھن ختم ہو جائیں گے تو بجلی پیدا کرنے کی خاطر انسان عجیب و غریب طریقے  لازماً اپنائے گا۔ مثال کے طور پر دہلی یونیورسٹی کے طلبہ ہی کو لیجیے۔ انہوں نے حال ہی میں بھارتی ریلوے کو بجلی پیدا کرنے کا ایک انوکھا منصوبہ پیش کیا۔ وہ یہ کہ  پٹڑیوں کے وسیع و عریض قومی نظام میں جہاں جہاں سرنگیں واقع ہیں‘ ان کے نزدیک ہوائی چکیاں نصب کی جائیں۔ وجہ یہ کہ کھلے میدان میں ہوا کا رخ چاروں طرف ہوتا ہے۔ جبکہ سرنگ میں ہوا صرف ایک طرف چلتی ہے۔ چنانچہ اس کی شدت قدرتاً زیادہ ہوجاتی ہے۔ پھر جب ریل گزرے‘ تو ہوا کی تیزی مزید بڑھا دیتی ہے۔ اس باعث سرنگوں کے منہ پر ہوائی چکیاں لگانا واقعی مناسب اقدام لگتا ہے۔ بھارتی ریلوے نے دہلی یونیورسٹی کے طلبہ کو دس لاکھ روپے دیئے ہیں تاکہ وہ دارالحکومت میں واقع ایک سرنگ میں  3.5کلو واٹ کی تجرباتی ہوائی چکی لگا سکیں۔ اگر یہ ہوائی چکی ایک گھنٹے میں 3 کلو واٹ بجلی پیدا کرنے میں کامیاب رہی‘ تو بھارتی ریلوے ایسی مزید چکیاں سرنگوں کے دہانے پر لگائے گی۔ جن ساحلی و پہاڑی پاکستانی علاقوں میں سال کے بیشتر عرصے ہوا کم از کم پانچ چھ میل فی گھنٹے کی رفتار سے چلتی ہے‘ وہاں گھروں میں  1.5تا 3.5کلو واٹ کی ہوائی چکیاں لگانا بہت مفید ہے۔ یاد رہے‘  1.5کلو واٹ کی ہر ہوائی چکی لگانے کا مطلب ہے‘220 درخت کٹنے سے بچا لیے گئے۔ ہوائی چکی کی تنصیب پر خاصا خرچ آتا ہے‘ لیکن وہ پچیس سال تک کام دیتی ہے۔ چناں چہ سارا خرچ اگلے چھ سات برس میں وصول ہو جاتا ہے۔ پھر گھر کو تقریباً مفت بجلی ملنے لگتی ہے۔ایک زمانے میں پاکستان ریلوے لاہور تا خانیوال بجلی کے ذریعے ریل چلاتی تھی‘ مگر یہ منصوبہ ختم کر دیا گیا۔ اُدھر ترقی یافتہ ملکوں میں سارا ریلوے نظام بجلی پر منتقل ہو چکا کہ یوں ریل تیز دوڑتی ہے۔ اب ذرا برطانوی ریلوے کی جدت دیکھیے۔ برطانوی ریلوے اگلے پانچ برس میں پٹڑیوں کے آس پاس’’بارہ ہزار‘‘ چھوٹی ہوائی چکیاں لگوا رہی  ہے۔ یہ چکیاں کُل ایک گیگا واٹ (ایک ہزار میگاواٹ) بجلی پیدا کریں گی۔ یوں برطانوی ریلوے بجلی کی 75 فیصد ضرورت اپنی چکیوں کے ذریعے پوری کر لے گا۔ اسے کہتے ہیں: پیش بینی‘ عقل مندی اور جذبہ حب الوطنی!کاش پاکستانی حکمران طبقہ انہی سے سبق سیکھ سکے۔ جراثیم سے چلنے والی بیٹری امریکا کی مشہور سٹانفورڈ یونیورسٹی میں سائنس داں ’’ایکسوالیکٹروجن‘‘ (Exoelectrogen)جراثیم سے بجلی بنانے کی سعی کر رہے ہیں۔ یہ جراثیم کی ایسی خاص قسم ہے جو کوڑا کرکٹ اور حیوانی و انسانی فضلہ کھا کر الیکٹرون خارج کرتے ہیں۔ یہ الیکٹرون بیٹری تک لا کر اسے چارج کرنا ممکن ہے۔ سائنس داں اس ضمن میں کامیاب تجربہ کر چکے۔ انہوں نے بیٹری سے نصب دو الیکٹروڈ (منفی اور مثبت) گندے پانی میں ڈال دیئے۔ جب ایکسوالیکٹروجن جراثیم نے گندگی کھا کر الیکٹرون خارج کیے تو انہیں بیٹری کے مثبت الیکٹروڈ نے پکڑ لیا۔ یوں الیکٹرون بیٹری میں بجلی بھرنے یعنی اسے چارج کرنے لگے۔ امریکی ماہرین کی کوشش ہے کہ جن ٹریٹمنٹ پلانٹس میں گندا پانی صاف ہوتا ہے نیز فضلے کو ٹھکانے لگایا جاتا ہے‘ وہاں ایکسوالیکٹروجن جراثیم سے بجلی بنانے والی دیوہیکل بیٹریاں رکھی جائیں تاکہ وہ ٹریٹمنٹ پلانٹ کو تو بجلی فراہم کر سکیں۔ سائیکل کی برکت لیجنڈری برطانوی ڈرامہ نگار، ولیم شیکسپیئر کا قول ہے ’’کوئی چیز اچھی یا بری نہیں ہوتی، محض ہماری سوچ اسے نیک یا بد بناتی ہے۔‘‘ یہ بات خاصی حد تک درست ہے۔ مثال کے طور پر سائیکل ہی کو لیجئے۔ ہمارے ہاں اسے غریبوں کی معمولی سواری سمجھا جاتا ہے اور تعلیم یافتہ و امرا سائیکل پر بیٹھنا اپنی شان کے منافی سمجھتے ہیں جبکہ یورپ میں وزیراعظم اور شہزادے شہزادیاں کسی قسم کا احساس کمتری رکھے بغیر آرام و سکون سے سائیکل چلاتی ہیں۔ غرض سوچ کی معمولی سی اونچ نیچ بھی نقطہ نظر کو بہت تبدیل کرڈالتی ہے۔ یورپی ماہرین نے اب سائیکل سے چارج ہونے والا جنریٹر ایجاد کرلیا ہے۔ سائیکل کے ساتھ یہ جنریٹر لگا کر صرف 20 منٹ ادھر ادھر گھومیے، اس میں 400 واٹ بجلی پیدا ہوجائے گی۔ یہ بجلی ایک عام لیپ ٹاپ کو ایک گھنٹے تک چلاسکتی ہے۔ لہٰذا یہ ’’سائیکل جنریٹر‘‘ لوڈشیڈنگ کے وقت لیپ ٹاپ چلانے کے علاوہ بلب جلا اور موبائل چارج کرسکتا ہے۔ ہے نہ کام کی چیز! پہیے چلنے سے جنم لینے والی قوت کو یہ جنریٹر بجلی میں بدل دیتا ہے۔ یہ ابھی کچھ مہنگا ہے۔ یورپی موجد سعی کررہے ہیں کہ سستے میٹریل استعمال کرکے اس کی قیمت اتنی کم کردیں کہ عام لوگ بھی جنریٹر خرید سکیں۔ مودی سبز توانائی پہ فدا! نریندر مودی میں یقیناً خامیاں ہوں گی‘ لیکن ان کی یہ خوبی بہت بڑی ہے کہ وہ بھارت کو ہر لحاظ سے ترقی یافتہ اور خوشحال بنانے کا وژن رکھتے ہیں۔ اب شعبہ توانائی ہی کو لیجیے۔ بہ حیثیت وزیراعلیٰ گجرات مودی ہی نے سب سے پہلے قابل تجدید ذرائع توانائی (Renewable energy) پر توجہ دی۔ انہوں نے ریاست میں شمسی بجلی گھر بنوائے اور ہوائی چکیاں لگوائیں۔ اب وزیراعظم بن کر وہ ماحول دشمن رکازی ایندھن کے بجائے ’’سبز توانائی‘‘ (پانی‘ دھوپ‘ ہوا) پر توجہ دینا چاہتے ہیں۔ مودی حکومت نے حال ہی میں اعلان کیا کہ ساحل گجرات پر ہوائی چکیوں سے چلنے والا بجلی گھر بنایا جائے گا۔ اس بجلی گھر میں 100میگا واٹ بجلی بنے گی۔ مودی حکومت کا ٹارگٹ یہ ہے کہ 2020ء تک ہر سال بھارت بھر میں  کم از کم ’’5 تا10ہزار میگاواٹ بجلی‘‘ بنانے والے شمسی بجلی گھر‘ ہوائی چکیاں اور ڈیم بنائیں جائیں۔ مدعا یہی ہے کہ بجلی کی بڑھتی ضرورت کما حقہ پورا ہوسکے۔ فی الوقت چین ’’سبزتوانائی‘‘ میں سب سے آگے ہے۔ چینی حکومت نے پچھلے سال (2013ء میں) ’’بارہ ہزار میگاواٹ‘‘ کے نئے شمسی بجلی گھر‘ ہوائی چکیاں اور ڈیم بنا کر نیا ریکارڈ قائم کر دیا۔ مزید براں سیکڑوں چینی کمپنیاں اب سستے شمسی (سولر) پینل بنا رہی ہیں۔ انہی کی وجہ سے 2008ء سے لے کر اب تک شمسی پینلوں کی قیمت ’’اسی فیصد‘‘ کم ہو چکی۔ گویا شمسی پینل سے بنی بجلی کی قیمت اب فی واٹ تقریباً سرکاری بجلی کے برابر آ چکی ۔ دوسری طرف بھارتی فوج بھی ’’سبز توانائی‘‘ کو بہ رغبت اپنا رہی ہے۔ اس نے اعلان کیا ہے کہ سرحدوں پر جہاں جہاں خاردار تاروں میں بجلی دوڑتی پھرتی ہے‘ وہ بجلی اب شمسی بجلی گھروں اور ہوائی چکیوں کی مدد سے بنے گی۔ یاد رہے‘ آج بھی تقریباً چالیس کروڑ بھارتی بجلی کی سہولت سے محروم ہیں۔ لہٰذا وہ درخت کاٹ کر یا مٹی کے تیل سے توانائی کی روزمرہ ضرورت پوری کرتے اور ماحولیات کو مختلف طریقوں سے نقصان پہنچاتے ہیں۔مودی حکومت اب ان صنعت کاروں‘ تاجروں اور عام لوگوں کو بھی مالی امداد فراہم کرنے کاارادہ رکھتی ہے جو دفاتر‘ شاپنگ پلازہ اور گھر بناتے ہوئے بی آئی پی وی(Building-integrated photovoltaics) ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنا چا ہیں۔ اس ٹیکنالوجی میں دوران تعمیر ہی عمارت کی چھتوں‘ کھڑکیوں‘ برآمدوں وغیرہ میں شمسی پینل نصب کیے جاتے ہیں۔ یوں عمارت یا مکان چھوٹا سا بجلی گھر بن جاتا ہے مگر اس کی ظاہری زیبائش و خوبصورتی میں فرق نہیں آتا۔