|

وقتِ اشاعت :   November 9 – 2014

کراچی: صنعتی علاقوں میں پانی کابحران شدت اختیار کرنے کے باعث ٹاولزایکسپورٹرز نے نئے برآمدی معاہدے روک دیے ہیں جس کے نتیجے میںرواں سال کے باقی ماندہ مدت میں پاکستانی تولیوں کی برآمدات میں نمایاں کمی کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں۔ کراچی  کے 300 ٹاولزایکسپورٹنگ یونٹس کو گزشتہ 6 ماہ سے مستقل بنیادوں پر پانی کی قلت کا سامنا ہے جس کے نتیجے میں ٹاولز انڈسٹری50 فیصد پیداواری استعداد پر کام کررہی ہیں اور اس کے نتیجے میں ٹاولز سیکٹر خدمات انجام دینے والے10 فیصد سے زائد ورکرز بے روزگار ہوگئے ہیں۔ ذرائع نے ’’ایکسپریس‘‘ کو بتایا کہ ملک کے مجموعی  ٹیکسٹائل برآمدات میں ٹاول سیکٹر کا حصہ 10 فیصد ہے جبکہ مجموعی ملکی ٹاول مصنوعات کی برآمدات میں کراچی کی ٹاول انڈسٹری کا حصہ 70 فیصد ہے۔ کراچی میں منظم شعبے کے تحت 155 ٹاول یونٹس جبکہ غیرمنظم شعبے کے تحت چھوٹی درمیانی اور گھریلو نوعیت کے 145 سے زائد ٹاول یونٹس قائم ہیں۔ کراچی میں پانی کی یومیہ طلب972 ایم جی ڈی ہے لیکن فی الوقت 55 فیصد کی کمی سے صرف435 ایم جی ڈی پانی کی سپلائی ہورہی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ متعلقہ ذمے دار ادارے اگر پانی کی لیکیج اور چوری پر قابو پانے کے علاوہ فلٹریشن استعداد بڑھانے کی حکمت عملی اختیار کریں تو کراچی کے لیے یومیہ 647 ایم جی ڈی پانی کی سپلائی بڑھ سکتی ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق مالی سال2012-13 کے دوران پاکستان سے ٹاول مصنوعات کی برآمدات میں0.30 فیصد کی کمی واقع ہوئی تھی اور مجموعی طور پر76 کروڑ73 لاکھ16 ہزار ٹن ٹاول مصنوعات کی برآمدات ہوئیں لیکن یورپین یونین کی جانب سے پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ ملنے کے ٹاول ایکسپورٹس پر مثبت اثرات مرتب ہوئے اورجولائی تا ستمبر2014 میں گزشتہ سال کے اسی مدت کی نسبت3.65 فیصداضافے سے پاکستان سے 18 لاکھ30 ہزار ٹن ٹاول مصنوعات کی برآمدات ہوئیں حالانکہ اس مدت کے دوران امریکا کے لیے پاکستانی ٹاولز کی ایکسپورٹ میں4.45 فیصد اور دیگر ممالک میں6.94 فیصد کی کمی واقع ہوئی لیکن جی ایس پی پلس اسٹیٹس کی وجہ سے یورپین یونین کے رکن ممالک میں اس عرصے کے دوران پاکستانی ٹاولز کی ایکسپورٹس میں18 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ کراچی کی ٹاولز انڈسٹری کو درپیش پانی کے بحران کے حوالے سے ٹاولزمینوفیکچررزاینڈ ایکسپورٹرایسوسی ایشن (ٹی ایم اے) کے سینٹرل چیئرمین مہتاب الدین چاؤلہ نے ’’ایکسپریس‘‘ کو بتایا کہ شہر کی صنعتوں کو بدامنی، گیس اور بجلی کے بحران کے بعد اب پانی کے نئے بحران میں دھکیلا جارہا ہے، رواں مالی سال کے آغاز پر ٹاولزایکسپورٹ میں اضافہ اگرچہ جی ایس پی پلس اسٹیٹس کی وجہ سے ممکن ہوا ہے لیکن دیگر بحران کے ساتھ پانی کا بحران جوں جوں شدت اختیار کررہا ہے اسی تناسب سے ٹاولز انڈسٹری بھی نئے برآمدی معاہدے کرنے سے گریز کررہی ہے کیونکہ غیرملکی خریدار اور عالمی اسٹورچینز پاکستانی برآمدکنندگان سے مقررہ وقت پر ہی ڈلیوری چاہتے ہیں جو موجودہ حالات میں ناممکن ہوگیا ہے اور انہی عوامل کے سبب ٹاول انڈسٹری50 فیصد پیداواری استعداد پر کام کررہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مستقبل کی غیرواضح صورتحال کی وجہ سے کراچی کے برآمدکنندہ صنعتکارمضطرب ہیں جس کی وجہ سے انہوں نے غیرملکی خریداروں کے ساتھ نئے برآمدی معاہدوں سے گریز کرنا شروع کردیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وفاق کے ساتھ سندھ حکومت بھی اس سنگین بحران کا سنجیدگی کے ساتھ نوٹس لیتے ہوئے پانی سپلائی کی ترجیحات کا تعین کرے بصورت دیگر ٹاولز سیکٹر بھی جی ایس پی پلس اسٹیٹس سے مکمل استفادہ نہیں کرسکے گا بلکہ رواں مالی سال کے باقی ماندہ مدت میں ٹاول مصنوعات کی برآمدات میں کمی اور بے روزگاری کے حجم میں سنگین نوعیت کا اضافہ ہوجائے گا۔