|

وقتِ اشاعت :   November 10 – 2014

اسلام آباد : وزیراعظم نواز شریف اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کی جانب سے آج نئے چیف الیکشن کمشنر کے نام کو حتمی شکل دیئے جانے کا امکان ہے۔ خورشید شاہ نے اتوار کو ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا”سپریم کورٹ کی دی گئی ڈیڈلائن ہمارے سر پر پہنچ گئی ہے جس کو دیکھتے ہوئے ہم پیر کو نئے چیف الیکشن کمشنر کے نام حتمی شکل دے دیں گے”۔ سابق چیف جسٹس آف پاکستان تصدق حسین جیلانی اور جسٹس ریٹائرڈ طارق پرویز سب سے مضبوط امیدوار کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں تاہم پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے عوامی سطح پر سابق جسٹس ناصر اسلم زاہد کو سی ای سی بنانے کے لیے لابنگ کی جارہی ہے جن کے نام پر پیپلزپارٹی کو تحفظات ہیں۔ خورشید شاہ نے بتایا کہ ان کی جماعت ریٹائرڈ چیف جسٹس کے حق میں ہے جن کا نام وزیراعظم نے تجویز کیا ہے حالانکہ پی پی پی کی ساتھی اپوزیشن پارٹی پی ٹی آئی نے اس تجویز کو مسترد کردیا ہے۔ سپریم کورٹ نے حکومت اور اپوزیشن کو نئے چیف الیکشن کمشنر کے انتخاب کے لیے تیرہ نومبر تک کا وقت دیا ہے، خیال رہے کہ فخرالدین جی ابراہیم کے استعفے کے بعد یہ مستقل چیف الیکشن کمشنر کا انتخاب نہیں ہوسکا اور یہ عہدہ سولہ ماہ سے خالی ہے۔ پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے اتوار کے روز رحیم یار خان میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس کی نامزدگی کو مسترد کرتے ہوئے جسٹس ریٹائرڈ تصدق حسین جیلانی پر زور دیا تھا کہ وہ اس پیشکش کو خود مسترد کردیں۔ تاہم وزیراعظم یا قائد حزب اختلاف پر ایسی کوئی آئینی پابندی نہیں کہ وہ آئندہ چار برس کے لیے نئے چیف الیکشن کمشنر کے انتخاب کے لیے کسی اور پارٹی سے مشاورت کریں۔ خورشید شاہ کے مطابق”اگرچہ ہم پر اس حوالے سے کوئی قانونی پابندی نہیں پھر بھی ہم نے پی ٹی آئی کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم، پی پی پی شیرپاﺅ اور فاٹا کی قیادت سے مشاورت کی ہے”۔ مشاورت کے عمل میں شامل لگ بھگ تمام جماعتوں ماسوائے پی ٹی آئی کے، جسٹس ریٹائرڈ تصدق حسین جیلانی کی نامزدگی پر رضامند نظر آتی ہیں، مگر خورشید شاہ کی جانب سے پیش کیا گیا جسٹس ریٹائرڈ طارق پرویز کے نام کو بھی کسی جماعت نے مسترد نہیں کیا اور اب تک ان کے نام پر کسی جانب سے کوئی اعتراض بھی سامنے نہیں آیا۔ پی ٹی آئی بھی اس معاملے پر خاموش ہے کیونکہ جسٹس ریٹائرڈ طارق پرویز مئی 2013 کے انتخابات کے دوران خیبرپختونخو کے نگران وزیراعلیٰ تھے اور تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ کے پی میں الیکشن کے دوران بہت کم یا دھاندلی ہوئی ہی نہیں جو طارق پرویز کی زیرنگرانی منعقد ہوئے۔ گزشتہ انتخابات میں شکست کے باوجود طارق پرویز کی نامزدگی کو اے این پی اور پی پی پی شیرپاﺅ کی حمایت حاصل ہے۔ خورشید شاہ نے ڈان کو بتایا کہ ان کی جماعت پی ٹی آئی کے پیش کیے گئے نام جسٹس ریٹائرڈ ناصر اسلم زاہد کے نام پر غور نہیں کررہی کیونکہ ماضی میں پی پی پی قیادت کے خلاف مقدمات پر انہوں نے مخالفانہ فیصلے دیئے تھے۔ انہوں نے کہا”میں پی ٹی آئی کے نائب چیئرمین شاہ محمود قریشی سے رابطے میں ہوں اور ان سے کہا ہے کہ وہ کوئی اورایسا نام تجویز کریں جو سب کے لیے قابل قبول ہو”۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگرچہ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس رانا بھگوان داس نے سی ای سی کی پیشکش کو مسترد کردیا ہے تاہم میں نے شاہ محمود قریشی سے کہا ہے کہ وہ سابق جج کو یہ عہدہ قبول کرنے کے لیے قائم کرنے کی کوشش کریں۔ جسٹس ریٹائرڈ رانا بھگوان داس قانونی پابندی کے باعث چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ سنبھال نہیں سکتے، کیونکہ وہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین رہ چکے ہیں اور موجودہ قوانین کے تحت وہ کوئی اور حکومتی یا آئینی عہدہ سنبھالنے کے مجاذ نہیں، سابق جج نے اپنے ایک بیان میں بھی کہا تھا کہ وہ نہیں چاہتے کہ کسی ایک فرد کو فائدہ پہنچانے کے لیے حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے قوانین میں تبدیلی کی جائے۔ خورشید شاہ نے کہا کہ انہوں نے پاکستانی عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری سے بھی رابطے کی کوشش کی مگر ایسا ہو نہیں سکا۔