|

وقتِ اشاعت :   November 19 – 2014

sana-balochپاکستان کے کسی بھی روزنامہ کو اٹھا کر دیکھ لیں یا پھر سماجی رابطہsocial mediaویب سائٹوں کی ورق گردانی کریں تو آپکو پاکستان کے زیر اثر بلوچستان کے بارے میں کوئی نہ کوئی خبر ضرور پڑھنے کو ملے گی۔ لاپتہ افراد ، مسخ شدہ لاشیں،70% ستر فیصد سے زائد بچوں کی اسکول وتعلیم کی سہولت سے محرومی، بچوں وماؤں کی شرح اموات سمیت آئے روز ہزارہ برادری کے قتل عام کی اندوہناک خبروں کے سوا کوئی خوشخبری پڑھنے کو نہیں ملے گی۔ کوئی مانے یا نہ مانے اسلام آباد کی عسکری وانتظامی اشرافیہ نے1998 سے پاکستان محکوم اقوام کی تحریک اور بعد ازاں بلوچ، اسلام آباد تناؤ کی بنیادی وجوہات کو منظر عام اور اخبارات سمیت بحث ومباحثے سے ہٹا دیا ہے۔ 2002 کے بعد جس شد ومدودلائل سے ہم بلوچستان سے قدرتی وسائل سونا ،چاندی، تانبا، گیس ، گوادر، دودار اور وسیع وعریض جغرافیے کے استعمال اور بلوچستان کے عوام کے عدم فوائد پر بات کرتے تھے آج اشرافیہ نے ہماری توجہ مسخ شدہ لاشوں، لاپتہ افراد، مذہبی انتہا پسندی، جرائم پیشہ افراد کی نشوونما، امن وامان جیسی موضوعات کی طرف موڑدیا ہے۔ آج پاکستان سمیت کئی عالمی لکھاری بلوچستان میں خونریزی اور بدامنی پر تو لکھتے ہیں لیکن کوئی مدلل انداز میں اس سارے شورش،بے چینی، اضطراب اور بے اطمینانی کی حقیقی وجوہات کو آشکار کرنے کی سعی یا تکلیف نہیں کرتا اور کوئی کر بھی نہیں سکتا ۔اگر پاکستان میں رہنے والے صحافی ہیں تو آپ کو حامد میر کی طرح نشان عبرت بنا دیا جائے گا۔ اگر آپ بلوچ صحافی ہیں تو آپ کو سچ گوئی کی سزا آپ کی مسخ شدہ لاش کی صورت میں آپ کے گھر والوں کو بھیج دیا جائے گا۔ اگر سفارتکار اور عالمی میڈیا کو بلوچستان کے زلزلہ زدگان اور قحط سالی سے مرنے والے بلوچوں کی مدد سے روکا جاسکتا ہے تو بلوچستان میں بھوک وافلاس سے مرنے والے اور70% سکول سے محروم بچوں سمیت بلوچستان کی دولت کو چین کو دان کرنے اور باالخصوص پاکستانی کمپنیوں کے ہاتھوں استعمال کی خبر کو کیسے نشر ہونے دیا جائے گا؟ خیر چھوڑئیے آتے ہیں موضوع کی طرف اور وہ یہ کہ بلوچستان، بلکہ دنیا کے سب سے بڑے سونا اور تانبے کے ذخائر میں سے ایک ،ریکوڈک کی خرید وفروخت کیلئے پیرس،لندن، اسلام آباد، بیجنگ سمیت تمام عالمی دارالخلافوں میں ایک کھلبلی سے مچی ہوئی ہے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان صوبائی اسمبلی میں مکمل تفصیلات بتائے بغیر تسلیاں دیتے ہیں کہ بلوچستان کے ساحل ووسائل پر سودا بازی نہیں کرینگے لیکن ہم جیسے مضطرب بلوچ مطمئن ہونے کا نام نہیں لیتے بھلا ہم مطمئن بھی کیوں ہوں؟ میں بلوچستان کی اس نسل کا سیاسی نمائندہ ہوں جس نے اسلام آباد میں بلوچوں کیلئے محض نفرت اور گولی و بندوق کے سواکوئی مثبت ردعمل نہیں دیکھا ،پاکستان کے پہلے رہنماؤں نے خان آف قلات کو دھوکہ دیا پھر نواب نوروز خان انکی تسلیوں اور قرآنی وعدوں کی زد میں آگئے۔ پھر نواب اکبرخان بگٹی اور ہم سب مذاکرات کی میز پر اپنے ساتھ ہونیوالی زیادتیوں اور استحصال سے اعداد و شمار پیش کرتے رہے لیکن بدلے میں دوران مذاکرات F16طیارے اور ٹینک ڈیرہ بگٹی اور بلوچستان میں لاشیں گرانے اور گھر مسمار کرنے میں مصروف رہے۔ خیر میں تو صرف یہ چاہتا ہوں کہ ڈاکٹر عبدالمالک اور بلوچستان کی موجودہ حکومت جو اسلام آباد کی مر ہون منت اپنے ایک پاؤں پر کھڑی ہے اگر بلوچستان کی گمشدہ دولت یا لوٹی ہوئی دولت کو اسلام آباد اور چین کی کمپنی سے واپس لے سکے تو ریکوڈک کے عالمی سطح پر ٹینڈر کے ذریعے نیلامی کا حق دیا جاسکتا ہے لیکن اگر وہ اس سلسلے میں تساہل سے کام لیں تو بلوچستان کی جدوجہد میں کار فرماتمام محاذوں پر برسرپیکارقوتوں کو یک آواز ویک قدم ہوکر بلوچوں کی آخری دولت کو اسلام آباد اور اسکے گماشتوں سے بچھانا ہوگا ۔ بلوچستان کی لٹی ہوئی نسلوں کو تعلیم ،روزگار ، صحت ، اور اپنے مادر وطن میں چین و سکون سے رہنے کا جو حق چھینا گیا ہے وہ توکوئی واپس نہیں کرسکتا ۔آئیے میں مختصراً آپکو بتاتا ہوں ہماری لوٹی ہوئی دولت کس کے پاس ہے اور کتنی ہے ؟ بلوچستان سے گیس 1952میں دریافت ہوئی 1990تک سندھ میں گیس کی دریافت سے قبل، بلوچستان پاکستان کی گیس کی ضروریات کا 90%فراہم کرتا تھا کیونکہ اس وقت بھی گیس کے کنووں پر پاکستانی کمپنیوں کا راج ہے اور بندوق بردار کمانڈوز تعینات ہیں کوئی جرات نہیں کرسکتا کہ گیس کے اخراج اور سپلائی کی شرح فیصد دریافت کرسکے یعنی حکومت بلوچستان کو بھی یہ علم نہیں کہ بلوچستان سے کتنا فیصد گیس حاصل ہوتا ہے اور کتنے فیصد گیس کو دیگر صوبوں کو منتقل کیا جاتا ہے البتہ بقول اسلام آباد کے بلوچستان کی گیس کی سپلائی گھٹ کر 26%ہوگئی ہے جسے میں بذات خود بغیر کسی عالمی ادارے کی سربراہی میں مانیٹرنگ کے بغیر تسلیم نہیں کرتا۔ مختصراً یہ کہ 1952سے نکلنے والی گیس کی کل مالیت 2013تک اگر 60%پیداوار کے لگائی جائے تو گذشتہ 60برسوں میں چھ ہزار ارب روپے مالیت کا گیس بلوچستان سے نکالا گیا ہے۔ واضح رہے کہ گیس کی قیمت عالمی منڈی میں اس وقت 3.60ڈالر یعنی ایک مکعب فٹ کی قیمت تین سو ساٹھ 360روپے جبکہ بلوچستان کو اس وقت پاکستان پیٹرولیم لمٹیڈ اوراسلام آباد صرف فی مکعب فٹ 55روپے کے حساب سے ادائیگی کرتے ہیں اور یہ رقم بھی بلوچستان کو نہیں ملتی بلکہ 55روپے کا بارہ اعشاریہ پانچ فیصد (12.5%) رائلٹی کی مد میں بلوچستان کو ملتا ہے اور باقی سب اسلام آباد اور کمپنی کے خزانے میں جاتا ہے۔ شاید آپ یقین نہ کریں اگر 1952سے گیس کی رقم منصفانہ بنیادوں پر ادا کردی جاتی اور یہ رقم صرف تعلیم پر خرچ ہوتا تو آج بلوچستان میں صلاحیتوں سے حاصل ہونے والی آمدنی سالانہ 900ارب روپے کے قریب بنتا یعنی بلوچستان کے عوام سعودی عربیہ ، قطر اور ترقی یافتہ ممالک سے بھی آگے نکل چکے ہوتے ۔ کہنے کا مقصد یہ کہ اسلا م آباد نے نہ صرف ہمیں اپنے وسائل سے محروم کیا اوران سے حاصل ہونے والے فوائد سے دور رکھا بلکہ چھ ہزارارب روپے سے محروم رکھنے کے ساتھ ساتھ اسلام آباد نے ہماری نسلیں ، مستقبل اور ماضی کو بھی بڑی بے در دی سے لوٹا ہے۔ لہذا لوٹ مار صرف دولت اور وسائل کی ہوتی تو ہم اتنے مضطرب نہیں ہوتے لیکن ایک منظم انداز میں ہماری دولت کے ساتھ اسلام آباد ہم سے ہماری دائمی خوشحالی اور نسلوں کا مستقبل بھی لوٹ رہا ہے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ آئیے نظر دوڑائیے چاغی کی طرف ہم سب سیندک منصوبے کیلئے ہر فورم پر آواز بلند کرتے رہے 1997سے 1999کے آخر تک ہم اسمبلیوں میں سیندک منصوبے کو چلانے ، چاغی میں تعلیم و تربیت بالخصوص معدنی علوم کی یونیورسٹی قائم کرنے کے لیے آئے روز اپیلیں کرتے تھے لیکن جمہوری ادوار میں شفافانہ طریقے سے نہ تو سیندک کا بین الااقوامی سطح پر ٹینڈر کیا گیا نہ وہاں پر تعلیم و تربیت کے مراکز قائم کئے گئے بلکہ جنرل مشرف اور اسکے گماشتوں نے اندرون خانہ سازباز اور بھاری رشوت لے کر سیندک چین کی کمپنی MCCکے حوالے کردیا ، ساتھ میں یہ بھی وعدہ کہ فرنٹیئر کور کی خصوصی پلاٹون انکی لوٹ مار کو تحفظ دے گا ۔ 2002سے آج تک سیندک سے 22سوارب ڈالر یعنی 2ہزار 2سو ارب روپے کا سونا اور تانبہ نکالا گیا ہے اگر اس رقم کا ایک فیصد بھی چاغی کے عوام یا علاقے پر خرچ ہوتا تو آج چاغی پیرس اور لندن نہیں تو کم از کم دبئی بن سکتا تھا سیندک کے فوائد سے ہزاروں طالبعلم اسکالرشپ حاصل کرسکتے، علاقے میں معدنی علوم کی یونیورسٹی قائم ہوسکتی تھی۔ پندرہ بیس اعلیٰ تعلیمی ادارے اور اسکول کھل سکتے تھے لیکن صد افسوس کہ آج سیندک کو چائنا کی کمپنی اور اسکی مشینری نے دوزخی کنووئیں میں بدل کر رکھ دیا ہے جس سیندک کی عمر36سال تھی اسے بغیر کسی عالمی ماحولیاتی اور تکنیکی ماہرین کے مشاہد ے کی عدم موجودگی کی بنا پر چین کی کمپنی نے 12سال میں ختم کردیا ہے۔ استحصال کی اتنی بدصورت شکل دنیا میں کہیں بھی موجود نہیں۔ میں اس وقت افریقہ کے سب سے زیادہ غریب اور تنازعات سے گزرنے والے ملک کی مثال دینا چاہتاہوں، اتنی بدصورت اور جار خانہ استحصال یہاں بھی دیکھنے کو نہیں ملتا لیکن آج ہمارے ناک تلے اتنی جارحانہ استحصال کے بعد بھی ہمارے دوست یہ کہتے ہوئے نہیں تھکتے کہ ہم ساحل وسائل کا ہر صورت میں دفاع کرینگے ۔ میں زیادہ گھمبیر اعدادو شمار پر مشتمل کالم نہیں لکھنا چاہتا لیکن ایک اپیل کرتا ہوں بلوچستان کے نوجوانوں سے اور تمام محاذوں پر سرگرم جماعتوں و تنظیموں سے کہ خدارا ریکوڈک کو پیرس اور لندن میں کوڑیوں کے دام بیچنے والوں کا حتساب ضرور کریں اور اس سارے عمل کو روکنے کیلئے متحد ہوجائیں ۔ موجودہ صوبائی حکومت ہماری لٹی ہوئی نسلوں اور لوٹی ہوئی گزشتہ دولت کا 25%بھی اسلام آباد او چین کی کمپنی سے لینے میں کامیاب ہوتا ہے تو ہم ان کو ریکوڈک اور اپنی نسلوں کے وسائل کا اختیار دینگے۔ اگر وہ اس میں ناکام ہوتے ہیں تو خدارا ہماری نسلوں کی جمع پونجی کو ایک بار پھر عالمی منڈیوں میں کھوڑیوں کے دام بیچنے میں شریک کار نہ بنیں۔