اسلام آباد: وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کہتے ہیں کہ اگر کوئی سیاسی جلسے کی آڑ میں توڑ پھوڑ کرنا چاہتا ہے تو ہم اس کے لئے بھی تیار ہیں اب شاہراہیں روکنے اور حکومتی اداروں پر دھاوا بولنے کا تماشا ختم ہونا چاہئے جب کہ ریاست اور اس کے ادارے اتنے کمزور نہیں کہ انہیں روک نہ سکیں۔
اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ کہا کہ انہیں دھرنے کی آڑ میں انقلاب لانے کے خواہش مندوں کے ایجنڈے میں انقلاب کم اور بگاڑ زیادہ نظرآتا ہے۔ پاکستان کے آئین اور قانون کے باوجود ’’گو گو ‘‘والا قانون سکھایا جارہا ہے، اب یہ ملک کے عوام کو فیصلہ کرنا ہے کہ ’’گو گو ‘‘ کے ذریعے حکومتیں جائیں گی یا پھر آئینی طریقے سے، کنٹیز پر کھڑے ہوکر گالیاں دینا کہاں کا انصاف ہے، گو گو کہنے سے حکومت تبدیل نہیں ہوگی، تحریک انصاف جو نظام آملک میں لانا چاہتی ہے وہ سب سے پہلے اپنے ہاں نافذ کرے۔ جن لوگوں نے وزیر اعظم سے لے کر پولیس تک تمام لوگوں کے خلاف مقدمات درج کرانے والے اپنے خلاف کیسز پر چیخ کیوں رہے ہیں۔ پولیس نے انقلابی گروپوں کے خلاف مقدمات دائر کئے ہیں حکومت نے نہیں۔
چوہدری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ملک میں کہیں بھی کسی جلسے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی لیکن تحریک انصاف کو 30 نومبر کے جلسے کے لئے اجازت نامہ لینا ہوگا، ہماری انتظامیہ آئندہ 2 روز میں تحریک انصاف سے رابطہ کرے گی تاکہ جلسے کی جگہ کا تعین کیا جاسکے۔ ہم اسلام آباد میں سیاسی جلسے کے لئے تیار ہیں اور اگر کوئی سیاسی جلسے کی آڑ میں توڑ پھوڑ کرنا چاہتا ہے تو ہم اس کے لئے بھی تیار ہیں، اب شاہراہیں روکنے اور حکومتی اداروں پر دھاوا بولنے کا تماشا ختم ہونا چاہئے، ریاست اور اس کے ادارے اتنے کمزور نہیں کہ انہیں روک نہ سکیں، اسلام آباد پولیس دھاوا بولنے والوں کو روکنے کے لئے تیار ہے، اگر پولیس نے اپنی پوری طاقت دکھائی تو اسلام آباد کو کلیئر کرانا مشکل کام نہیں۔ حکومت کسی بھی قانونی اقدام سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے گی۔ اگر دوبارہ ریاستی اداروں پر حملہ کیا گیا تو بھر پور جواب دیا جائے گا۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ طاہر القادری کے جانے کے بعد یہاں صرف 40 سے 50 افراد باقی بچے تھے جنہیں صاف کرنا کوئی بڑی بات نہیں تھی لیکن حکومت اب بھی صبر و تحمل کا مظاہرہ کررہی ہے لیکن تحریک انصاف کو اب قوم اور انتظامیہ کو 30 نومبرکے جلسے کے مقاصد واضح کرنا ہوں گے کہ وہ سیاسی جلسہ کرنے آرہے ہیں یا دھاوا بولنے، اگر وہ دھاوا بولنے آرہے ہیں تو 30 نومبر سے پہلے ہی قانون حرکت میں آجائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ریڈ زون میں فوج کو بلانے کا اختیار وزارت داخلہ کی صوابدید ہے، ہم نے اہم عمارات سے پاک فوج کی سیکیورٹی ہٹا دی ہے، پاک فوج کی جانب سے اس سلسلے میں کوئی تحفظات نہیں۔ عمران خان کی گرفتاری کا فیصلہ پولیس اور عدالتوں کو کرنا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے تحریک منہاج القرآن سے رابطے ہیں اور ہم ان کے اعتماد کے لئے ہر ممکن قدم قدم اٹھانے کے لئے تیار ہیں۔