|

وقتِ اشاعت :   November 19 – 2014

آجکل سندھ میں ایک زبردست بحث چھڑی ہوئی ہے کہ سندھ میں 40ہزار سے زائد بھوت اساتذہ ہیں جو دہائیوں سے تنخواہیں حکومت سندھ سے وصول کررہی ہیں اور اسکولوں کا آج تک انہوں نے رخ نہیں کیا ۔کسی بھی بھوت استاد کو اپنے شاگردوں سے متعلق معلومات نہیں ہیں کیونکہ استاد اور شاگرد نے آج دن تک ایک دوسرے کو دیکھا ہی نہیں ہے۔ سندھ کے تعلیم کا بجٹ تقریباً 120ارب روپے ہے اس کا ایک اچھا خاصہ حصہ بھوت اساتذہ کی نذر ہوجاتا ہے۔ ہزاروں اسکول حکومت کے ریکارڈ پر موجود ہیں مگر سب بند پڑے ہیں۔ اس اسکینڈل میں سیاسی رہنما اور طاقتور وڈیرے ملوث ہیں۔ کیونکہ یہ تمام اسکول ان کے احکامات کے تحت بنے ہیں اور تمام بھرتیاں ان کی مرضی سے ہوئیں ہیں۔ اب سیاسی رہنما، وڈیرے اور طاقتور شخصیات پریشان ہیں کہ بھوت اساتذہ کے خلاف مہم ایک تحریک کی شکل اختیار کررہی ہے جس سے ان کی حکومت اور مستقبل کے لیڈر شپ کو خطرات لاحق ہیں۔ اس لئے طاقتور طبقات اس مہم کے خلاف ہیں اور وہ ان لوگوں کے خلاف گھیرا تنگ کررہے ہیں جو اس مہم میں پیش پیش ہیں۔ ان 40ہزار بھوت اساتذہ میں ہزاروں کی تعداد میں مقامی اخبار نویس بھی شامل ہیں جو صرف مہینے کے آخر میں تنخواہیں براہ راست بینک سے حاصل کرلیتے ہیں اور بھوت اسکولوں کا رخ ہی نہیں کرتے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ اسکول سندھ کے دور دراز علاقوں میں واقع ہیں اور بھوت اساتذہ اپنی تنخواہیں کراچی، کوئٹہ، لاہور اور سندھ کے دوسرے بڑے بڑے شہرکے بینکوں سے وصول کررہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ تمام بھوت اساتذہ بڑے شہروں میں موجود ہیں اور وہیں سے اپنی تنخواہیں وصول کررہے ہیں۔ بعض افسران بڑی بڑی تنخواہیں وصول کررہے ہیں۔ بعض کی تنخواہیں 80ہزار روپے ماہانہ سے زیادہ ہیں چنانچہ زیادہ تر بھوت اساتذہ حکمرانوں، افسران اور وڈیروں کے نور نظر ہیں ان کی ملازمتوں کو کوئی خطرات لاحق نہیں ہے۔ البتہ انہوں نے ان لوگوں کو زیادہ پریشان کررکھا ہے جنہوں نے یہ مہم شروع کی ہے۔ سندھ حکومت کو ایک فیصلہ کرنا پڑے گا کہ وہ بھوت اساتذہ کے خلاف زبردست کارروائی کرے اور سندھ کے تعلیمی نظام کو تباہی سے بچائے۔ ان تمام اسکولوں کو واگزار کرے جن کو وڈیروں نے اوتاخ بنارکھا ہے یا اسکول کے احاطے کو بھیڑ بکریاں پالنے کا فارم بنارکھا ہے۔ یا ان کو اپنے مہمان خانے میں تبدیل کررکھا ہے۔ اس میں سندھ کی موجودہ حکومت اور گزشتہ حکومتیں بھی شامل ہیں۔ وزراء اور افسران اپنی ان کوششوں کو ترک کردیں جس کا مقصد بھوت اساتذہ کو بچانا اور ان کو سرکاری خرچ پر پالنا ہے۔ اس سے ان کی حکومت نہ صرف خطرات سے دوچار ہوگی بلکہ ان کا سیاسی مستقبل داؤ پر لگ جائے گا۔ سندھ کے وزیراعلیٰ اس کے لئے ایک اعلیٰ اختیاراتی عدالتی کمیشن بنائے جو ہر معاملے کی تحقیقات کرے اور سندھ کے اربوں روپے بچائیں اور سندھ دشمن بھوت اساتذہ کا ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاتمہ کیا جائے۔ مذکورہ بالا اعداد و شمار سندھ کے حوالے سے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بھوت اساتذہ بلوچستان میں بھی پائے جاتے ہیں تو کیوں نہ حکومت بلوچستان بھی ان بھوت اساتذہ کے خلاف کاروائی کا آغاز کرے جو قوم کے مستقبل سے کھیل رہے ہیں اور مفت کی تنخوائیں بٹور رہے ہیں۔ بلوچستان کی حکومت مزید تاخیر سے گریز کرے اور فوری طور پر گھوسٹ اساتذہ کے خلاف کاروائی کا آغاز کرے اور ساتھ ہی ایسے اشخاص کے خلاف بھی کاروائی کرے جنہوں نے ان اساتذہ کو بھرتی کیا یا جن کی سفارش پر بھرتی ہوئے ۔اگرچہ یہ انتہائی مشکل امر ہے لیکن آغاز تو کہیں نہ کہیں سے اور کبھی نہ کبھی تو کرنا پڑے گاتو کیوں نہ یہ نیک کام آج سے شروع کیا جائے۔