|

وقتِ اشاعت :   November 19 – 2014

گزشتہ چھ دہائیوں سے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کشیدہ رہے ہیں سوائے چند سالوں کے یعنی طالبان حکومت کے دوران جب انہوں نے حکومت پاکستان کی مدد سے تخت کابل پر قبضہ کرلیا۔ باقی تمام ادوار میں دونوں ملکوں کے تعلقات کشیدہ یا غیر دوستانہ رہے ہیں۔ اس سے قبل سردار داؤد نے بھی ایک بار کوشش کی تھی کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنائے جائیں اور ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ ہمیشہ کے لئے حل کردیا جائے۔ جب سردار داؤد پاکستان سے واپس کابل پہنچے تو ان کے خلاف افغان فوج نے قوم پرستوں اور کمیونسٹوں کی سربراہی میں بغاوت کردی اور سردار داؤد کا تختہ الٹ دیا جس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں مزید کشیدگی آئی۔ دہائیوں میں یہ پہلی بار ہے کہ افغان صدر اس خواہش کے ساتھ پاکستان آئے کہ وہ ماضی کی تلخ باتیں بھولنے کو تیار ہیں اور مستقبل میں تعاون کی سوچ رہے ہیں۔ یہ بات صحیح ہے کہ دہشت گرد پاکستان اور افغانستان دونوں کے مشترکہ دشمن ہیں۔ افغان طالبان کابل حکومت کے خلاف برسرپیکار ہیں جبکہ پاکستان مسلح طالبان افواج سے نبردآزما ہے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ طالبان ایک ساتھ دونوں ملکوں کے خلاف کارروائیاں کررہے ہیں۔ دتہ خیل میں 34دہشت گرد مارے گئے۔ ایک حملہ میں دہشت گردوں نے پانچ فوجیوں کو ایک میجر سمیت شہید کردیا۔ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن اپنے آخری مراحل میں داخل ہوچکا ہے۔ اور ساتھ ہی خیبر کے علاقے میں دوسرا آپریشن شروع ہوچکا ہے۔ ان دونوں کا مقصد صرف افغان سرحدوں کو نہ صرف محفوظ بنانا ہے بلکہ پاکستان کے اندر دہشت گردی کا خاتمہ ہے۔ ایک سینئر فوجی افسر کا اندازہ ہے کہ افواج پاکستان نے اتنا اسلحہ پکڑا ہے جس سے دہشت گرد ریاست پاکستان کے ساتھ 15سال مزید جنگ کرسکتے تھے۔ اسی طرح افغانی طالبان اور ان کے حمایتی بھی افغان حکومت کے خلاف اسی قسم کے جنگ میں ملوث ہیں اور وہ افغان حکومت سے بات چیت کے لئے تیار نہیں ہیں، وہ صرف جنگ کے ذریعے ہی افغان حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے ہیں جو ممکن نہیں ہے ۔دونوں ملکوں کے لئے واحد راستہ یہ ہے کہ وہ متحد ہوکر دہشت گردی کے خلاف مشترکہ جنگ لڑیں اور طالبان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے شکست دیں۔ اس کے لئے پاکستانی افواج سرحدی علاقوں میں بھرپور فوجی اور فضائی کارروائی میں مصروف ہیں اور ان کو زبردست کامیابیاں مل رہی ہیں۔ ساتھ ہی اطلاعات ہیں کہ افغان سرحد کے قریب حالات معمول پر آرہے ہیں اور امن بحال ہورہا ہے۔ اگر افغان افواج اپنے ملک اور خصوصاً سرحدی علاقوں میں اس قسم کی کارروائی کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ دونوں ممالک اور خصوصاً سرحدی علاقوں میں امن قائم نہ ہو۔ بلکہ افغان حکومت کو چاہئے کہ وہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملے کریں اور ان کو تباہ کریں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ افغان حکومت ملا فضل اللہ کو گرفتار کرے اور ساتھیوں سمیت ان کو حکومت پاکستان کے حوالے کرے تاکہ ان کے ساتھ انصاف کیا جائے۔ ملا فضل اللہ سوات آپریشن کے دوران فرار ہوکر چترال چلے گئے جہاں سے وہ آئے دن دیر اور ملحقہ علاقوں میں دہشت گردانہ حملے کرتے رہتے ہیں۔ افغانستان پر لازم ہے کہ وہ ان حملوں کا تدارک کرے اور پاکستانی دہشت گرد جو افغانستان میں پناہ لے رکھے ہیں ان کے خلاف فوجی کارروائی کرے۔