|

وقتِ اشاعت :   November 22 – 2014

وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے متعلقہ حکام خصوصاً پولیس اور محکمہ صحت کو حکم دیا ہے کہ وہ صوبے بھر میں جعلی ادویات کے خلاف زبردست کارروائی کریں۔ انہوں نے جعلی ادویات بنانے والے اور فروخت کرنے والوں کو موت کا سوداگر گردانا اور کہا کہ ان کے خلاف بھرپور کارروائی ہونی چاہئے۔ وزیراعلیٰ نے یہ حکم میڈیسن ٹریڈرز کے ایک وفد سے ملاقات میں کہی اور کہا کہ جعلی ادویات بنانے والے اور فروخت کرنے والے دونوں مجرم ہیں۔ بلوچستان میں جعلی ادویات بنانے اور فروخت کرنے کا کاروبار زور پکڑتا جارہا ہے اور ہر گلی اور ہر سڑک پر درجنوں میڈیکل اسٹورز ادویات فروخت کررہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان میڈیکل اسٹورز کو اتنا منافع نہیں ہوگا کہ وہ کمپنی کی کمیشن پر گزارا کریں۔ظاہر ہے ان میں سے بڑی تعداد میں میڈیکل اسٹورز جعلی ادویات فروخت کرتی ہوں گی جن کے خلاف وزیراعلیٰ نے کارروائی کا حکم دیا ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے عوام الناس کو یہ خبر سننے کو نہیں ملی کہ متعلقہ صحت کے حکام نے کسی میڈیکل اسٹور پر چھاپہ مارا اور وہاں سے جعلی ادویات جمع کیں اور ان کو لیب ٹیسٹ کے لئے بھیجا۔ نہ ہی پشین کے بعد کسی جعلی ادویات کی فیکٹری بلوچستان بھر میں پکڑی گئی۔ لہٰذا حکام اعلیٰ کی طرف سے کارروائی نہ ہونے کی صورت میں جعلی ادویات کا کاروبار زور پکڑتا جارہا ہے۔ پشین سے ٹرک لوڈ جعلی ادویات پکڑی گئیں۔ یہ سہرا کراچی پولیس کے سر ہے۔ بلوچستان پولیس یا بلوچستان میں صحت کے حکام کا کوئی کارنامہ نہیں ہے۔ جعلی ادویات کراچی میں فروخت ہوتے ہوئے پکڑی گئیں تھیں اور تفتیش کے دوران معلوم ہوا کہ ادویات تیار کرنے والی جعلی فیکٹری پشین میں ہے۔ اب یہ صوبائی محکمہ صحت کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو بتائیں کہ کون سی ادویات جعلی ہیں اور کون سی حقیقی ہیں۔ میڈیکل اسٹور والوں کو پابند کیا جائے کہ وہ عام ایجنٹ سے ادویات نہیں خریدیں بلکہ کمپنی اور اس کے ایجنٹ سے خریدیں تاکہ عوام الناس کویہ تسلی ہو کہ جو ادویات وہ استعمال کرر ہے ہیں وہ اصلی ہیں، نقلی نہیں ہیں۔ یہ ذمہ داری ڈاکٹر صاحبان کو بھی کسی حد تک قبول کرنی چاہئے جو انفرادی طور پر میڈیکل اسٹورز کو جعلی ادویات فروخت کرر ہے ہیں یا میڈیکل اسٹور ز کواس بات کا پابند بنائیں کہ وہ عام افراد سے ادویات نہیں خریدیں گے۔ صرف مسلمہ کمپنی کے ایجنٹ سے ہی ادویات خریدیں گے۔ یہی طرز عمل پورے بلوچستان کے لئے نافذ ہو۔ تمام میڈیکل اسٹور پر یکساں قوانین لاگو ہوں۔ پولیس اور محکمہ صحت کو یہ اختیارات دیئے جائیں جو گزشتہ وفاقی حکومت نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو دیئے تھے کہ وہ چھاپہ مار سکتی ہیں پولیس اور محکمہ صحت کے افسران کی مدد کے لئے ایک جدید لیب بنائی جائے جہاں پر ادویات کو ٹیسٹ کیا جائے۔