کوئٹہ (جنرل رپورٹر) بلوچستان میں خسرہ جیسی قابل تشخیص مرض اس سال بلوچستان میں اب تک 22بچوں کی جانیں لے چکی ہے ‘ جبکہ اس وباء سے ایک ہزار تین سو پچاس بچے متاثر ہوئے ہیں ‘ محکمہ صحت کے ذرائع کے مطابق بچوں کے اموات کی تعداد چھپائی جا رہی ہے اگر مہم کا فوری آغاز نہ کیا گیا تو مزید ہلاکتوں کا خدشہ ہے ‘ حکومت نے تاحال اپنے حصہ کے 13کروڑ 40لاکھ روپے جاری نہیں کیئے جس سے خسرہ کیخلاف مہم دو سال میں نہیں چلائی جاسکی ‘بین الاقوامی ادارے GAVIنے اپنے حصہ کے 14کروڑ 80لاکھ پہلے ہی اعلان کرچکی ہے تاہم بلوچستان حکومت تاحال اپنے حصہ کی اس چھوٹی رقم کا انتظام نہ کرسکی ہے ‘ محکمہ صحت کے ایک سینئر اور ذمہ دار ڈاکٹر نے بتایا کہ خسرہ کی وباء سے مرنے اور متاثر ہونے والے بچوں کی تعدادکو چھپایا جار ہا ہے تاکہ حکومت کی عدم دلچسپی واضح نہ ہوسکے ‘ذرائع نے کہا کہ خسرہ کی وباء ژوب‘ لسبیلہ‘ چاغی‘ زیارت ‘ قلعہ عبداللہ‘ قلعہ سیف اللہ‘ نوشکی‘ قلات ‘ پشین اور دیگر اضلاع کے دیہاتوں میں پھوٹ پڑی ہے او ر اسکے کیخلاف باقاعدگی سے مہم کا آغاز بھی نہیں کیا گیا ہے‘ خسرہ کیخلاف آخری مہم 2012کو چلائی گئی جس کو غیر تسلی بخش مہم قرار دیا گیا تھا جس کے باعث 2013ء میں خسرہ کی وباء پھوٹ پڑی جس نے 43بچوں کو موت کی لپیٹ میں لے لیا جبکہ ہزار کے قریب بچے متاثر ہوئے‘مقامی اضلاع کے ذرائع نے بتایا کہ اموات کی تعداد پچھلے سال بھی زیادہ تھی اور بہت سے مر جانے والے بچوں کو شمارنہیں کیا گیا جس کی وجہ وہاں سہولیات کا فقدان اور صحت کے سہولیات تک عدم رسائی ہے ‘ ذرائع نے روزنامہ آزادی کو بتایا کہ گزشتہ دنوں بھی محکمہ صحت اور پی اینڈ ڈی کو اس خطرناک مرض کے تیزی سے پھیلاؤ کے متعلق آگاہ کیا گیا اور خسر ہ کیخلاف مہم کے حوالے جمع کی گئی سمری کی بھی یاد دہانی کرائی گئی تاہم اس پرکوئی عمل نہیں ہوا ‘ چاروں صوبوں کے چیف سیکرٹریز نے باقاعدہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ خسرہ کیخلاف مہم کا آغاز کریں گے ‘ دیگر صوبوں پنجاب‘ سندھ اور کے پی کے نے تو معاہدے کے مطابق مہم کا آغاز 2013کو ہی کردیا تھا تاہم بلوچستان حکومت اب تک مہم کا آغاز نہ کرسکی ہے جس کے باعث یہ مرض بچوں بچوں کی مسلسل اموات کا باعث بن رہی ہے ‘ روز نامہ آزادی نے جب محکمہ صحت کے سیکرٹری ارشد بگٹی سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ سمری بالکل تیار ہے صرف فنڈز ریلیز ہونے کا انتظار ہے‘ ذرائع کے مطابق 44لاکھ بچو ں کو خسرہ کے خلاف ٹھیکے لگانے ہیں اور ٹھیکے نہ لگانے کے باعث وہ اس وقت خسرہ سے متاثرہونے کے رسک پر ہیں ۔ماہرین صحت بلوچستان نے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ اربوں رپوے سیکورٹی‘ مہنگے گاڑیوں اور دیگر غیر ضروری تقریبات میں خرچ کیا جارہا ہے تاہم بچوں کی جانیں بچانے کیلئے اس ضروری مہم کو نہیں چلایا جار ہا ہے اور 13کروڑ 40لاکھ روپے کو معمولی رقم قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر حکومت بلوچستان میں مخیر حضرات سے رابطہ کرے تو اس کا انتظام چند دنوں میں ہوجائے گا جس کم از کم بچوں کی جانیں بچ جائیں گی ۔واضح رہے کہ بلوچستان کاشمار بچوں کی صحت کے حوالے سے افریقی ممالک سے کیا جاتا ہے صوبے میں ہر ایک ہزار بچوں میں ایک سو گیارہ کی اموات ہوجاتی ہے اور پورے بلوچستان میں صرف 16فیصد بچوں کو نو بیماریوں کیخلاف حفاظتی ٹھیکے لگائے جاتے ہیں ‘ اس اعداد و شمار کو انتہائی تشویشناک قرار دیا گیا ہے ۔
بلوچستان خسرہ کی وباتشویشناک حد تک بڑھ گئی امسال 22بچے جاں بحق ہزارومتاثر
وقتِ اشاعت : November 24 – 2014