|

وقتِ اشاعت :   December 1 – 2014

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار کا کہنا ہے کہ خفیہ اداروں کو 30 نومبر کے دن شدت پسند تنظیموں خصوصاً کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے تحریک انصاف کے جلسے پر حملے سے متعلق معلومات ملی ہیں۔ جبکہ جلسے کو پرامن رکھنے کی ذمہ داری تحریک انصاف نے لی ہے۔ وفاقی دارالحکومت کی انتظامیہ نے پاکستان تحریک انصاف کو اسلام آباد میں جلسہ کرنے کی اجازت دیدی ہے۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار کا کہناہے کہ حکومت نے جلسے کے منتظمین کے ساتھ ایک تفصیلی معاہدے پر اتفاق کیا ہے جس کے مطابق جلسہ گاہ کے اندر تمام شرکاء کی سکیورٹی کی ذمہ داری پی ٹی آئی کی ہوگی۔ معاہدے کی تفصیل کیمطابق پی ٹی آئی کو اسلام آباد کے مرکز میں جناح ایونیو پر جلسہ گاہ اور پریڈ گراؤنڈ پر اسٹیج بنانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ معاہدے کے تحت اسٹیج کا رخ پارلیمان کی بجائے اب جناح ایوینو کی جانب ہوگا۔ معاہدے کے مطابق یہ اسٹیج رات 12 بجے تک ختم کر دیا جائے گا اور لوگ پرامن طریقے سے منتشر ہوں گے۔ چوہدری نثار کا کہنا تھا علاقے سے باہر نکلنے پر سکیورٹی ادارے حرکت میں آئیں گے اور ان سے سختی سے نمٹا جائے گا۔ حساس علاقوں کو بند کیا جائے گا لیکن ان کی کوشش ہوگی کہ یہ عمل کم سے کم ہو۔ان کا کہنا تھا کہ اس مرتبہ بھی غیرمسلح پولیس تعینات کی جائے گی لیکن پانی کی توپیں اور لاٹھیاں منگوائی گئی ہیں۔وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار نے کہا کہ پْرامن سیاسی جلسے اور احتجاج پر حکومت کو اعتراض نہیں تاہم اتوار کے روز جلسے کے شرکاء ریڈ زون میں داخل نہیں ہوں گے۔ان کا کہنا تھا کہ سرکاری عمارتوں پر یلغار کی صورت میں قانون حرکت میں آئیگی۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت سیاسی اور جمہوری انداز میں جلسے کے ساتھ ساتھ احتجاج کے حق میں ہے اور حکومت کسی حوالے سے بھی اس میں رکاوٹ نہیں ڈالے گی۔تحریک انصاف اور حکومت کے مابین طے پانے والے معاہدے کی دستاویز کے مطابق شرکاء کے لیے 20 واک تھرو گیٹ لگائے جائیں گے۔ معاہدے کی پاسداری یقیناًدونوں فریقین کے ذمہ ہو گی اگر جلسے کے شرکاء نے ریڈ زون میں داخل ہونے کی کوشش کی تو ہنگامہ آرائی سے بڑھ کر شاید کچھ ہو جبکہ اس کے ساتھ ساتھ شدت پسند تنظیموں کی جانب سے حملے کے خدشات کا بھی اظہار کیا گیا ہے جسے روکنا حکومتی ذمہ داری ہے جو اپنی پوری مشینری جلسے کی سیکیورٹی پر مامور کرے تاکہ انسانی جانوں کا ضیاع نہ ہوسکے۔ اب تک جو سیاسی ماحول ملک میں بنتا جارہا ہے اس سے ایسے لگتا ہے کہ 30 نومبر کے دن یا اس کے چند ماہ بعد ملک میں سیاسی بحران پیدا ہوسکتا ہے کیونکہ عمران خان کا سخت موقف اب بھی موجود ہے جبکہ حکومت بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ اگر اب تک کی تمام سیاسی سرگرمیوں کو دیکھا جائے تو لچک کا مظاہرہ ضرور کیا گیا مگر اس کے سیاسی مقاصد کچھ بھی نہیں نکلے۔ سیاسی جرگے کو جو ذمہ داری سونپی گئی تھی اس کے بھی مثبت نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ عسکری قیادت کی جانب سے بھی معاملے کو حل کرنے کا کہا گیا پھر بھی عمران خان اور مسلم لیگ ن کے درمیان کشیدگی میں کمی نہیں آئی۔ سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ موجودہ سیاسی بحران سے نکلنے کیلئے اب تک کوئی بھی ایسا اشارہ نہیں مل رہا جس سے نکلا جاسکے اور یہ عمل ملکی سیاست کیلئے نیک شگون نہیں اور یہ عمران خان کے مستقبل کی سیاست کیلئے بھی بہت ساری مشکلات پیدا کرے گا۔ بہر حال دھاندلی کے معاملے سے لیکر اب حکومت کا تختہ الٹنے تک بات آ گئی ہے جس کے ا بھی آثار فی الحال دکھائی نہیں دے رہے اور نہ ہی مڈٹرم الیکشن کیلئے کوئی ماحول بنتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس تمام صورتحال میں عمران خان کے ساتھ صرف شیخ رشید ہی کھڑے دکھائی دے رہے ہیں جس کی جماعت کی مقبولیت ملک میں کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی ۔دیگر تمام ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں نے حکومت کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے اور جس کا واضح اظہار ان کے جلسے جلوس سمیت جوائنٹ سیشن اجلاس میں ان کے رہنماؤں نے برملا اپنے تقاریر میں کیا ہے۔ موجودہ سیاسی ماحول کیا کروٹ بدلے گی اس کا اندازہ فی الحال لگانا ا مشکل ہے۔