کوئٹہ: وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے تسلیم کیا ہے کہ بیرون ملک رہائش پذیر بلوچ رہنماؤں سے بات کی کوششوں میں کسی قسم کی پیشرفت نہ ہو سکی۔
منگل کو بم حملے میں بچنے والے مشیر تعلیم سردار رضا محمد بریچ کی رہائش گاہ پر گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ خودساختہ جلاوطنی اختیار کرنے والے بلوچ رہنما بات چیت نہیں کرنا چاہتے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس بات چیت شروع کرنے کے لیے وفاقی حکومت اور تمام اہم سیاسی جماعتوں کا مینڈیٹ موجود تھا لیکن یہ اسی وقت ممکن تھا جب دوسرا فریق بھی بات چیت کے لیے تیار ہو تاہم اس کے باوجود انہوں نے بات چیت جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا۔
ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ وہ بلوچستان میں امن عامہ کی خراب صورتحال میں غیر ملکی ہاتھ کے ملوث ہونے کے خدشے رد نہیں کر سکتے، غیر ملکی امن ناپاک عزائم کی تکمیل کے لیے مقامی لوگوں کو استعمال کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ خطے میں قیام امن کے لیے ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کا ازسر نو جائزہ لینا ہو گا۔
وزیر اعلیٰ نے کہا کہ سول اور فوجی قیادت صوبے میں قیام امن کے لیے مشترکہ کوششیں کر رہی ہے، بلوچستان کی ایران اور افغانستان سے متصل طویل سرحدیں ہیں اور حکومت کے لیے صوبے میں داخل ہونے والے شرپسندوں کو روکنا ممکن نہیں۔
’ہم اپنی سرحدوں کی حفاظت کے لیے تمام دستیاب وسائل کا استعمال کر رہے ہیں‘۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عام آدمی بھی حکومتی آفیشل جتنا اہم ہے اور حکومت دونوں کی حفاظت کررہی ہے۔
اس موقع پر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے وفاقی حکومت سے مالی مدد کی فراہمی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ہر وزیر یا رکن اسمبلی کو بلٹ یا بم پروف گاڑی کی فراہمی کے لیے بڑے پیمانے پر مالی وسائل کی ضرورت ہے۔
قوم پرست بلوچ رہنما مذاکرات کیلئے تیار نہیں، عبدالمالک بلوچ
وقتِ اشاعت : December 3 – 2014