|

وقتِ اشاعت :   December 4 – 2014

اسلام آباد: تھیلیسیمیا کے مرض کا شکار پانچ سے 16 سال کی عمر کے دس بچوں میں مبینہ طور پر انفیکشن زدہ خون کی منتقلی سے ان کے ایڈز میں مبتلا ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ اس بات کی تصدیق بدھ کو پاکستان تھیلیسیمیا فیڈریشن کی جنرل سیکریٹری ڈاکٹر یاسمین راشد نے کی۔ انہوں نے  بتایا کہ تمام بچوں کے ایچ آئی وی ٹیسٹ کیے گئے جس کی مثبت رپورٹ آئی تاہم میں کسی فردِ واحد پر الزام عائد نہیں کرنا چاہتی کیونکہ پاکستان میں بے شمار لوگوں کو غیر محفوظ طریقے سے خون منتقل کیا جاتا ہے۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز(پمز) کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اکرم کے مطابق چھ بچوں کا تعلق جڑواں شہروں اسلام آباد اور راولپنڈی سے ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پمز ہستپال نے متاثرہ بچوں کو مفت علاج اور بون میرو ٹرانس پلانٹ کی فراہمی کی پیشکش کی ہے۔ تھیلیسیمیا خون کی موروثی بیماری ہے اور یہ والدین کی جینیاتی خرابی کے باعث اولاد میں منتقل ہوتی ہے، اس مرض میں جسم میں ہوموگلوبن کی پیداوار بند ہوجاتی ہے۔ اس مرض کا شکار مریض کو مستقل سرخ خون کے خلیات کی ضرورت پڑتی ہے۔ ڈاکٹر یاسمین نے  مزید بتایا کہ میں یہ خبر سن کر دنگ رہ گئی، میں نے دس سال قبل خون کی منتقلی کے ایکٹ کے نفاذ کے لیے کوششیں کی تھیں لیکن ان قوانین کا نفاذ نہ ہو سکا جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں لوگوں کو ناقص خون منتقل کیا جاتا ہے اور وہ ایڈز، ہیپاٹائٹس سمیت متعدد خطرناک بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بیماریوں سے بچاؤ کے لیے ہر قسم کے خون کی منتقلی سے قبل اس کا باقاعدہ صحیح معائنہ ہونا چاہیے۔ اس موقع پر انہوں نے تسلیم کیا کہ تھیلیسیمیا کا شکار لوگ اس طرح کے واقعات کا زیادہ شکار ہوتے ہیں کیونکہ انہیں اکثر مختلف جگہوں سے خون کی منتقلی کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ پمز کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اکرم نے مطالبہ کیا کہ معاملے کی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کو فوری طور پر اقدامات کرنے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ نجی کلینک اور دیگر ادارے موت بانٹ رہے ہیں اور انہیں فوری طور پر روکنے کی ضرورت ہے، مجھے خطرہ ہے کہ اس سے مزید لوگ متاثر ہو سکتے ہیں۔ تھلیسیمیا سے آگاہی اور خاتمے کے لیے پاکستان میں قائم تنظیم(ٹی اے پی پی) کی صدر عائشہ عابد بھی اس واقعے پر بہت افسردہ نظر آئیں۔ انہوں نے  کہا کہ تھیلیسمیا کے مریضوں کے لیے خون زندگی ہے، انہیں ایک ماہ میں ایک سے تین مرتبہ خون کی منتقلی کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے، ان کے والدین کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ منتقل کیا جانے والا خون ٹیسٹ شدہ ہے۔ نیشنل ہیلتھ سروسز کی وزیر سائرہ افضل تارڑ نے  بتایا کہ انہوں نے ڈی جی صحت کو اس حوالے سے تفصیلی رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کردی ہے اور واقعے کے ذمے داران کا پتہ لگانے کے لیے کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ اس موقع پر انہوں نے وعدہ کیا کہ غیر رجسٹرڈ شدہ بلڈ بینک اور غیر ٹیسٹ شدہ خون بیچنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔