گزشتہ دنوں سے اکثر اخبارات میں خبریں چھپ رہی ہیں کہ سندھی نوجوان قوم پرستوں کی مسخ شدہ لاشیں مل رہی ہیں۔ چند ایک لاشوں کو بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں پھینکا گیا ہے۔ ان کو گولیاں مارنے کے علاوہ جسم پر تشدد کے نشانات بھی پائے گئے ہیں ان کے ورثاء نے میڈیا کو بتایا کہ ان کو اس سے قبل سرکاری اہلکاروں نے اغواء کیا تھا اور بعد میں ان کی تشدد زدہ لاشیں ویرانے سے ملی ہیں۔ ان میں سے ایک واقعہ زیادہ ہولناک تھا کہ جب سرکاری اہلکار پولیس کی گاڑی اور پولیس کی وردی میں سول اسپتال کراچی پر حملہ آور ہوئے اور ایک زیرعلاج زخمی شخص کو زبردستی اٹھاکر لے گئے۔ ان کے بھائی بہنوں اور رشتہ داروں نے شور مچایا تو ان کو بھی دھکے دے کر ایک طرف ہٹایا گیا اور زخمی آدمی کو سرکاری اسپتال بلکہ پاکستان کے سب سے بڑے اسپتال سے بندوق کی نوک پر اغواء کرکے لے گئے۔ شاید سرکاری اہلکاروں کو یہ غلط فہمی ہوگئی تھی کہ وہ تشدد اور فائرنگ میں ہلاک ہوگیا ہے مگر اس کو زندہ اور سلامت ویرانے سے برآمد کیا گیا تھا۔ وہ زخمی حالت میں تھا اس لئے پولیس نے ان کو سول اسپتال پہنچایا جہاں سے دوسرے سرکاری اہلکاروں نے ان کو دوبارہ اسپتال سے اغواء کیا۔ زخمی شخص کے رشتہ داروں نے پولیس والوں سے التجا کرتے رہے کہ ان کو سول اسپتال کراچی میں داخل نہ کریں کیونکہ اس کو دوبارہ اغواء کرکے قتل کر دیا جائے گا۔ ان کی یہ بات صحیح ثابت ہوئی کہ اسپتال جیسے محفوظ جگہ سے بھی اس شخص کو زبردستی اور طاقت کے زور پر اغواء کیا گیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کی دوسری پیشن گوئی کا کیا بنے گا کیا اس کی لاش کسی ویرانے سے مل جائے گی یا وہ بھی ہمیشہ کے لئے غائب ہوجائے گی ۔زیرحراست قتل کے واقعات اکثر بلوچستان میں ہوتے رہتے ہیں۔ ان کا بھی منفی نتیجہ نکلا۔ یعنی ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف نفرت میں اضافہ ہی ہوا گو کہ سرکاری اہلکار یہ سمجھتے ہیں کہ ڈر اور خوف کا ماحول پیدا کرکے اختلاف رائے کو ختم کیا جائے گا۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے احتجاج کا عمل چند ایک علاقوں میں محدود تھا مگر نواب بگٹی کی شہادت اور مری بگٹی علاقوں میں فوجی کارروائی کے بعد یہ احتجاج پورے بلوچستان میں پھیل گیا ۔بلوچستان کا کوئی علاقہ اس قسم کے احتجاج سے آج کل محفوظ نہیں ہے۔ بلکہ یہ دور دراز اور زیادہ پرامن علاقوں میں تیزی سے پھیل گیا۔ اس سے ثابت ہوا کہ زیر حراست تشدد اور قتل کے واقعات سے بے چینی مزید پھیل گئی ہے۔ اب اس کو سندھ تک توسیع دی گئی ہے اور سندھ میں بھی سندھی قوم پرستوں کے خلاف اسی قسم کے ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں جو بلوچستان میں گزشتہ 10سالوں سے کئے جارہے تھے۔ یہاں بھی نتیجہ بلوچستان سے مختلف نہیں ہوگا۔ سندھ میں بھی اسی قسم کے ردعمل کی توقع کی جاسکتی ہے کہ مسخ شدہ لاشیں محبت نہیں نفرت پھیلاتی ہیں۔ طاقت کا استعمال سیاسی معاملات کا حل نہیں ہے، اس کے لئے سیاسی ذرائع استعمال کرنے چاہئیں۔
سندھ میں بھی مسخ شدہ لاشیں
وقتِ اشاعت : December 5 – 2014