کوئٹہ (اسٹا ف رپو رٹر) بلوچستان ایک مرتبہ پھر بد ترین قحط سالی کی زد میں آنے کے باوجود حکومت کی جانب صورتحال سے نمٹنے کیلئے کوئی جامعہ حکمت عملی طے نہیں کی گئی ہے جس سے ماہرین نے خدشہ ظاہر کیاہے کہ بلوچستان میں غربت میں مزیداضافہ ہوگااور بڑی تعداد میں لوگ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوجائیں گے‘ آئندہ چند روزیا ماہ میں اگرصوبے کے بالائی علاقوں میںآئندہ چند روز بارشیں نہ ہوئی تو صوبے کی معیشت بری طرح متاثرہوسکتی ہے کیونکہ حکومت کے پاس صورتحال سے نمٹنے کیلئے کوئی متبادل حکمت عملی نہیں ہے ‘ انٹرنیشنل یونین آف کنزرویشن آف نیچر (آئی یوسی این )کے بلوچستان میں سربراہ فیض کاکڑ نے صحا فیو ں سے با ت چیت کر تے ہو ئے کہا کہ حکومت کی جانب سے اعلان کردہ ایک ارب روپے ناکافی ہیں کیونکہ بلوچستان ایک بار پھر بری طرح قحط سالی کی زد میں ہے اگر آئندہ چند ماہ میں بارشیں نہیں ہوئی تھی تو غربت میں اضافہ وہو گااور غربت کی لکیر کے نیچھے رہنے والے افراد میں اضافہ ہوگا‘ماہرموحولیات کے مطابق رواں سال موسم گرما میں بلوچستان کے بالائی علاقوں کوئٹہ‘ زیارت‘ لورلائی‘ خضدار‘ قلات‘ مستونگ‘خضدار‘ نوشکی‘ قلعہ عبداللہ ‘ قلعہ سیف اللہ ‘ بارکھان‘ کوہلواور ڈیرہ بگٹی میں بارشیں نہیں ہوئی ہیں اگر تھوڑی بہت ہوئی ہے تو بہت کم ہوئی ہے جبکہ نوشکی‘ چاغی‘ خاران اور مکران کے میں بھی بارشیں نہ ہونے کے برابر تھیں بلوچستان میں غربت کی شرح تقریبا 60فیصد بتائی جاتی ہے اور لوگوں کے زیادہ تر انحصار زراعت اور مال مویشی پر ہیں جبکہ صرف 25فیصد ملازمت پیشہ افراد ہیں کیونکہ یہاں پر نہ صنعتیں ہیں نہ کوئی بڑی پرائیوٹ کمپنیاں۔ بارشیں نہ ہونے کے سبب زراعت اورمال مویشی بری طرح متاثرہوئے ہیں ‘آئی یو سی این کے سربراہ فیض کاکڑ نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک ارب روپے آٹے کے منہ پر زرے کے برابر ہیں کیونکہ تباہی کااندیشہ بڑا اور متبادل حکمت عملی نہہونے کے برابر ہے انکا کہناہے کہ حکومت نے بین الاقوامی اداروں سے بھی رابطہ نہیں کیا ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ تمام انحصار قدرت پر کیا جارہا ہے ‘ انہوں نے بتایا کہ بہت سے لوگ بلوچستان کے مغربی علاقوں سے نقل مکانی کرچکے ہیں ‘ وزیراعلی بلوچستان ڈاکٹر مالک بلوچ نے خشک سالی کیلئے گزشہ ماہ ایک ارب روپے کا اعلان کیا ہے اور اس ضمن میں صوبائی وزراء سرفراز بگٹی اور عبدالرؤف لالہ کی سربراہی میں دو کمیٹیاں تشکیل دی ہیں جن کو متاثرہ علاقوں کا دورہ کرکے رپورٹ مرتب کی گئی اور متاثرہ افراد کی امداد کو کہا گیا ہے تاہم اب تک رپورٹ سامنے نہیں ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات نا کافی ہیں ‘ اس ضمن میں جب وزیراعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سے پوچھا گیا کہ بین الاقوامی اداروں سے رابطہ کیا جائے گا تو انکا کہنا تھا کہ اس مسئلے کو متنازعہ نہ بنایا جائے کیونکہ حکومت اس امر سے بالکل آگاہ ہے ‘ دوسری جانب آئی یو سی این کا کہنا ہے کہ اگر بارشیں نہ ہوئیں تو بلوچستان بہت بری طرح متاثر ہوگا کیونکہ گزشتہ قحط سالی کو ابھی تک آٹھ سال نہیں ہوئے ہیں کہ بلوچستان ایک بار پھر قحط سالی کی زد میں آگیا ہے اگر یہ سلسلہ سالوں جاری رہا تو بڑی تعداد میں لوگ نقل مکانی کریں گے ۔بلوچستان اس سے قبل 1999ء میں طویل قحط سالی کی زد میں رہا جس سے زراعت اور مال مویشیوں کو نقصان پہنچے اسکے بعد آٹھ سال قبل دوبارہ بلوچستان کو قحط سالی کا سامان کرنا پڑا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت نے کوئی جامعہ حکمت عملی مرتب نہیں کی ہے جس سے واضح لگتے ہیں اب تمام انحصار قدرت پر ہے اگربارشیں ہوئیں تو حالت بہتر ہوسکتی ۔
بلوچستان بدترین قحط سالی کی زد میں بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا خدشہ ،حکومت کی جانب سے کوئی حکمت عملی نہیں کی گئی
وقتِ اشاعت : December 8 – 2014