|

وقتِ اشاعت :   December 8 – 2014

فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف امریکہ کے دو ہفتوں کے دورے کے بعد وطن واپس پہنچ چکے ہیں۔ جنرل راحیل شریف نے امریکی حکام سے ملاقاتیں کیں اور فوجی تعلقات پر امریکی جرنیلوں سے تبادلہ خیال کیا۔ ان تمام مذاکرات کے نتائج فوری طور پر معلوم نہ ہوسکے۔ البتہ امریکہ نے مالی امداد ایک سال بڑھانے کا وعدہ کیا یعنی اگلے سال پاکستان کو کولیشن فنڈ سے ایک ارب ڈالر ملنے کی توقع ہے۔ امریکہ میں جنرل راحیل شریف نے یہ اعلان کیا تھا کہ ضرب عضب فوجی آپریشن تمام دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کیا جارہا ہے۔ ان میں القاعدہ اور حقانی نیٹ ورک شامل ہیں۔ امریکہ اور افغانستان مسلسل یہ الزام لگاتے رہے ہیں کہ پاکستان اور خصوصاً سیکورٹی کے ادارے حقانی نیٹ ورک کی پشت پناہی کررہے ہیں جو افغانستان میں گوریلا جنگ میں مصروف ہے یا افغانستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔ اب پہلی بار حکومت پاکستان اور افواج پاکستان نے برملا یہ اعلان کیا ہے کہ فوجی کارروائی بلاکسی امتیاز کے تمام دہشت گرد تنطیموں کے خلاف جاری ہے ۔گزشتہ روز اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ حقانی نیٹ ورک کے ایک اڈے پر حملہ کیا گیا جس میں حقانی نیٹ ورک کے کئی دہشت گرد ہلاک ہوئے۔ امریکہ اور بعض دوسرے ممالک کو پاکستان کے خلاف یہ شکایت تھی کہ وہ ’’جہاد‘‘ کو فارن پالیسی کے ایک اوزار کے طور پر استعمال کرتا آرہا ہے۔ اس وجہ سے گزشتہ سالوں کشمیر اور افغانستان میں جہادیوں کی حمایت کی گئی تھی۔ بعض مبصرین کا یہ خیال ہے کہ جمعیت دعوۃ ملک کی ایک بڑی دہشت گرد تنظیم ہے جس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ مگر سرکاری حکام اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ جمعیت دعوۃ ایک دہشت گرد تنظیم ہے اور یہ کہ یہ فلاحی کاموں میں حصہ لے رہی ہے۔ بہر حال جنرل راحیل شریف کے دورہ امریکہ کے بعد یہ توقعات بڑھ گئے ہیں کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات بہتر ہوں گے۔ پاکستان پورے خطے کے امن کے لئے ایک مثبت کردار ادا کرتا رہے گا۔ خصوصاً افغانستان کی صورت حال کو مستحکم بنانے میں مدد دے گا۔ امریکہ یہ پہلے اعلان کرچکا ہے کہ 31دسمبر کے بعد بھی امریکی افواج افغانستان میں موجود رہیں گی اور وہ فوجی کارروائیوں میں حصہ لیتی رہیں گی۔ اس طرح سے افغانستان میں کسی خلاء کا کوئی امکان نہں ہے۔ یہی پاکستان کو خدشات لاحق تھے کہ امریکی افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان میں ایک خلاء پیدا ہوگا جس کو بھارت پر کرنے کی کوشش کرے گا جس سے افغانستان میں خانہ جنگی کے طول پکڑنے کے خطرات زیادہ تھے۔ مگر اب امریکہ خود موجود ہے لہٰذا بھارت کی طرف سے افغانستان میں فوجی مداخلت کی کوئی توقع نہیں ہے۔