سینیٹ کی انٹیلیجنس کمیٹی کے رپورٹ چھ ہزار سے زیاد صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں بےشمار شواہد پیش کیے گئے ہیں تاہم فی الحال اس رپورٹ کا 480 صفحات پر مشتمل خلاصہ ہی منظر عام پر لایا جا رہا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے نمائندۂ خصوصی بن ایمرسن نے جنیوا سے جاری بیان میں کہا کہ ’بین الاقوامی قانون کی وساطت سے امریکہ قانونی طور پابند ہے کہ وہ ذمہ دار افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ امریکی اٹارنی جنرل کی قانونی ڈیوٹی ہے کہ وہ ذمہ دار افراد پر جرائم کے مرتکب ہونے کا مقدمہ کروائیں۔‘
دریں اثنا صدر براک اوباما نے منگل کو امید ظاہر کی کہ سینیٹ کی رپورٹ شائع ہونے سے پرانے دلائل کی پر دوبارہ جنگ نہیں ہو گی۔ انھوں نے کہا کہ اب آگے بڑھنے کا وقت ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’مجھے امید ہے کہ یہ رپورٹ ہمیں اس میں مدد دے کہ ٹارچر کے طریقوں کو ماضی میں دفن کر دیں۔‘
واضح رہے کہ جب سنہ 2009 میں براک اوباما نے عہدۂ صدارت سنبھالا تھا تو انھوں نے سی آئی اے کے تفتیشی پروگرام کو روک دیا تھا۔
نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بش انتظامیہ کے اہلکاروں پر مقدمہ چلانے کے امکانات کم ہیں کیونکہ امریکی محکمۂ انصاف نے کہا ہے کہ اس نے سنہ 2000 سے گرفتار ہونے والے افراد کے ساتھ برا سلوک کرنے کے دو کیسز کی تحقیقات کیں اور اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کیسز میں اتنے شواہد نہیں ملے جس کی مدد سے کسی پر جرم ثابت کیا جا سکے۔
ادھر بااثر ریپبلکن سینیٹر جان میک کین نے موقف پیش کیا ہے کہ ٹارچر کے ذریعے ’مشکل ہی سے مصدقہ معلومات حاصل ہوتی ہیں، اور یہ کہ اسامہ بن لادن کو ڈھونڈنے میں بھی سب سے اہم معلومات تفتیش کے روایتی طریقوں سے حاصل ہوئیں۔‘
جان میک کین نے ایک بیان میں کہا کہ ’یہ نہ صرف ہمارے دشمنوں کے لیے بلکہ امریکیوں کے لیے بھی حیران کن ہوگا کہ تفتیش کے ان طریقوں سے ہمیں 9/11 کے ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لانے اور آج اور کل دہشت گردوں کے حملے معلوم کرنے اور اسے روکنے میں کتنی کم مدد ملی۔‘
امریکی ایوان بالا کی انٹیلیجنس سے متعلق کمیٹی کی رپورٹ کے خلاصے میں کہا گیا ہے کہ مشتبہ دہشتگردوں سے تفتیش کے عمل میں بدانتظامی برتی گئی اور ان تفتیشی طریقوں سے حاصل کی جانے والی معلومات قابل بھروسہ بھی نہیں تھیں اور سی آئی اے ان افراد سے کارآمد معلومات کے حصول میں ناکام رہی۔
ایجنسی کے ڈائریکٹر جان برینن نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’اس پروگرام سے حاصل ہونے والی معلومات القاعدہ کو سمجھنے کے لیے کلیدی تھیں اور آج بھی انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں میں کام آ رہی ہیں۔‘
تاہم سی آئی اے نے تسلیم کیا ہے کہ اس پروگرام کے دوران خصوصاً ابتدائی عرصے میں غلطیاں ہوئیں جب وہ قیدیوں کو زیرِ حراست رکھنے اور ان سے تفتیش کے اتنے بڑے پیمانے کی کارروائی کے لیے تیار نہیں تھی۔
امریکی صدر براک اوباما نے رپورٹ پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ سی آئی اے کے تفتیشی طریقے امریکی اقدار کے خلاف تھے۔
ایک بیان میں امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ’ان طریقوں نے دنیا میں امریکہ کے مقام کو خاصا نقصان پہنچایا اور امریکہ کے لیے اتحادی ممالک سے اپنے مفادات کے حصول کا عمل مشکل بنا دیا۔‘
خیال رہے کہ امریکہ کے ری پبلکن صدر جارج بش کے دورِ صدارت میں سی آئی اے کی القاعدہ کے خلاف کارروائی کے دوران 100 سے زیادہ مشتبہ دہشت گردوں کو امریکہ سے باہر ’بلیک سائٹس‘ یا خفیہ قیدخانوں میں رکھا گیا تھا۔
ان افراد سے معلومات کے حصول کے لیے واٹر بورڈنگ، نیند سے محرومی، سخت موسم کا سامنا کروانے جیسے تشدد کے مختلف طریقے استعمال کیے گئے تھے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دورانِ تفتیش کچھ قیدیوں کو 180 گھنٹے یعنی تقریباً ساڑھے سات دن تک سونے نہیں دیا گیا جبکہ واٹر بورڈنگ کے دوران ابو زبیدہ سمیت کئی قیدی اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھے تھے۔
’تشدد کے مرتکب امریکی حکام کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے‘
وقتِ اشاعت : December 10 – 2014