|

وقتِ اشاعت :   December 13 – 2014

پاکستان میں جب بھی انتخابات ہوئے اس میں دھاندلی ہوئی۔ صرف 1970کے انتخابات میں دھاندلی اس طرح سے کی گئی کہ صرف دو قوتوں’’ پی پی اور عوامی لیگ‘‘ کو فتح حاصل ہو ئی۔ چونکہ مقتدرہ کا مشرقی پاکستان میں کوئی مفاد نہیں رہا تھا اس لئے وہاں پر انتخابات میں عوامی لیگ کو فری ہینڈ دیا گیا تھا تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرے۔ مقتدرہ کا یہ منصوبہ تھا کہ اس کی مخالفت میں بھٹو کو کھڑا کیا جائے جس کے لئے سندھ پنجاب کی تمام نشستیں پی پی کے حوالے کی گئیں۔ تاہم نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت نے اپنی نشستیں جیت لیں اور بلوچستان اور کے پی کے میں ان کی حکومتیں بالآخر قائم ہوگئیں۔ اس لئے کہا جاتا ہے کہ 1970کے انتخابات مقابلتاً اور نسبتاً زیادہ شفاف تھے وہ بھی مقتدرہ کی مرضی سے۔ مقتدرہ نے عوامی لیگ کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں کی۔ اس کو 169قومی اسمبلی کی نشستوں میں سے 167نشستوں پر کامیابی ملی۔ بھٹو صاحب کو صرف 80نشستیں ملیں۔ اس کے بعد کے انتخابات میں مقتدرہ کی جانب سے مکمل دھاندلی ہوئی اور سرکاری اہلکاروں نے مقتدرہ نے اپنی مرضی کے لوگوں کو انتخابات میں جتایا اور ہرایا۔ یہ پاکستان کی تاریخ ہے۔ اس کی ایک تاریخی مثال یہ ہے کہ 2002ء کے انتخابات میں جمعیت علمائے اسلام نے بلوچستان سے 19نشستیں حاصل کیں جبکہ 1970کے انتخابات میں اس کی قومی اسمبلی کی ایک نشست اور صوبائی اسمبلی کی تین نشستیں تھیں۔ 2002ء کے الیکشن میں جمعیت کو صرف اس لئے کامیابی دلائی گئی کہ امریکہ نے افغانستان سے طالبان کی حکومت کا خاتمہ کیا۔ دوسری طرف مقتدرہ نے امریکہ کو یہ پیغام دیا کہ طالبان کے اساتذہ نے افغانستان کے قریبی دو سرحدی صوبوں میں انتخابات جیت لئے ہیں۔ اور ان دونوں صوبوں میں جمعیت علمائے اسلام ایک اہم ترین پارٹی بن کر ابھری اور اتحادی حکومت میں شامل ہوگئی۔ اس پارٹی کو ویٹو کے اختیارات حاصل تھے اور بلوچستان کے وزیراعلیٰ ان کے سامنے بے بس تھے۔ اسی طرح سے مقتدرہ نے اپنے من پسند افراد کو ہر ایک انتخاب میں جتایا اور فیلڈ افسران نے یہ سب کارنامے اخبار نویسوں کے سامنے کرکے دکھائے۔ اس میں چیف الیکشن کمشنر، وزیراعلیٰ اور دوسرے افراد کو پتہ تک نہ لگ سکا کہ کیا ہوگیا ، کیسے ہوگیا اور کس نے کیا؟ گزشتہ انتخابات میں اے این پی، پی پی کے خلاف خودکش حملہ آور چھوڑدیئے گئے۔ حکم کے مطابق خودکش بمبار کارروائی کرتے رہے اور حکم کے مطابق کارروائی بند کرگئے۔ پی پی اور اے این پی کو جلسہ کرنے نہیں دیا گیاجبکہ تحریک انصاف اور مسلم لیگ لاکھوں کے جلسے کرتے رہے۔ تاہم پی پی کا حق صرف سندھ میں تسلیم کیا گیا، مرکز اور دوسرے صوبوں سے پی پی، اے این پی اور بی این پی مکمل طور پر بے دخل کردیئے گئے۔ یہاں یہ بات بتانا مقصود ہے کہ چیف الیکشن کمشنر، پوری الیکشن کمیشن، نگران حکومت بمعہ وزیراعلیٰ کے سب بے بس اور بلکہ بے خبر ہوتے ہیں۔ جب تک اختیارات حقیقی طور پر عوام اور عوامی نمائندوں کے ہاتھ نہیں آتے، اس طرح کے ڈرامے ضرور ہوتے رہیں گے۔ مقتدرہ کی ضرورت تھی کہ مسلم لیگ ن کی حکومت کو لگام دے اور کئی وجوہات کی بنا ء پر لگام دے تو عمران خان جیسے نابلد سیاستدان مہینوں ایمپائر کا انتظار کرتے رہے ، آخر کار ایمپائر نہیں آئے۔ اس لئے اس نے وزیراعظم بننے کا خواب ترک کردیا۔ اور اب عمران خان نواز شریف کے استعفیٰ کا مطالبہ نہیں کرے گا۔ چیف الیکشن کمشنر کو بھی تسلیم کرے گا۔ اسمبلی کی رکنیت برقرار رکھے گا مگر اسمبلی میں نہیں جائے گا۔