|

وقتِ اشاعت :   December 13 – 2014

buladiآج کے حالات و واقعات کو دیکھ کرعمر وعیار اور اکبر و بیربل کی کہانیاں پڑھنے والے شاید کئی ذہن بچپن کے بعد اب پھر ان ہی کہانیوں اور ان ہی کرداروں کو سوچتے ہونگے،ان کہانیوں اور آج کے حالات میں فرق صرف اتنا ہے کہ عمر و عیار کی زنبیل میں ہر چیز سما جاتی تھی اور بیربل اپنے قصوں اور عقل و دانشمندی سے درباریوں اور بادشاہ اکبر کا دل لوٹ لیتا تھا جبکہ آج کے عمر و عیار اور بیربلوں کی زنبیلیں نظر آتی ہیں نہ ان کی عقلمندی اور دانشمندی کے قصے سننے کو ملتے ہیں۔ عرصہ دراز سے میڈیا بھی ان ہی کرداروں کے بھنور میں کچھ اس طرح سے جکڑی ہوئی ہے کہ رعایا بے چاری کے غم بانٹ بھی نہیں سکتی۔۔وقت کے ہاتھوں مجبور میڈیا ادارے بریکنگ نیوزپر بریکنگ نیوز کی دوڑ میں ایک دوسرے پر سبقت کیلئے ’’سب سے پہلے ‘‘اور’’ صرف ہم ‘‘کے دعوے کرتے نہیں تھکتے۔ آج کے عمر و عیار اور بیربلوں کی ایک اور بات بھی عجیب لگتی ہے کہ خواہ یہ اپنا دربار یا زنبیل کہیں بھی کھول لیں ۔ ضرور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمارے درباریوں کو دیکھ لیں اتنے درباری کہیں بھی نہیں ملیں گے ،اب تو درباریں بھی روز لگنے لگی ہیں۔شاید واپڈا لوڈ شیڈنگ کی ٹائمنگ بھول سکتی ہے مگر یہ وقت مقررہ پر اپنا دربار لگانا نہیں بھولتے۔ کیا مخالف کیا حریف سبھی اس دوڑ میں اپنے اپنے گھوڑے دوڑاتے نظر آتے ہیں کہیں کسی گھوڑے کی ٹانگیں کھینچی جاتی ہیں تو کہیں گھوڑے ہی کو خرید لیا جاتا ہے۔رعایا کی اکثریت جو سیاست کے گند سے پاک ہے وہ نیوز چینلز پر ان عمر وعیار اور بیربلوں کے دربار دیکھنے کی بجائے کسی انٹرٹینمنٹ چینل پر کرائم اسٹوریز پر مبنی کوئی ڈرامائی سین دیکھتے ہیں یا کسی ڈرامے میں ساس کے ہاتھوں مجبور بہو کو جلتے یا تو ہنستے بستے جیٹا لال کے تارک مہتا کا الٹا چشمہ یا بگ باس کا شو۔اور کیوں نہ دیکھیں نیوز چینلز پر کون سی ان کیلئے کوئی خوشخبری آنی ہے اگر ان عمر وعیار و بیربلوں کے دربار سے نیوز چینلز کی شہ سرخیاں تبدیل بھی ہوتی ہیں تو وہ کسی دھماکے یا کسی آفت کی خبر میں بدل جاتی ہیں۔سو سیاست سے دور اور وقت کے ہاتھوں مجبور رعایا کو بھی تو کسی جگہ اپنا دل لگانا یا وقت بتانا ہی ہے تو وہ اپنا کام بھی فرض سمجھ کر انجام دے رہی ہے۔۔کیونکہ اب یہ رعایا بھی جان چکی ہے کہ سال کے آخر میں اکتیس دسمبر کا ڈوبتاسورج ٹی وی اسکرینز پرغم و بے بسی کی یادیں تو بہت چھوڑتا چل دیتا ہے مگر جنوری کا طلوع ہوتا سورج کبھی خوشی کی نوید سنانے بھی نہیں آتا اور نہ ہی جنوری کے شروع ہونے پر ہر طرف پھول کھلتے ہیں نہ آسمان اپنا رنگ بدلتا ہے۔