میں نے خواتین کے لیے ایدھی کی پناہ گاہ کا دورہ کیا۔ یہ ادارہ کراچی کے اس نواحی علاقے میں قائم ہے جو طالبان کے حامیوں کی نرسری کے طور پر بدنام ہے۔
یہاں کی زیادہ تر خواتین یا تو خراب رشتوں کی وجہ سے وہاں ہیں یا پھر گھروں سے نکال دی گئی ہیں۔
یہاں خواتی مل جل کر کھانا پکانے، صفائی اور دوسرے کے بچوں کی دیکھ بھال کا کام کرتی ہیں۔ کسی سے کبھی نہیں پوچھا جاتا کہ انھوں نے یہاں کیوں پناہ لے رکھی ہے۔
یہاں ایک ضابطے کی سختی سے پابندی کی جاتی ہے کہ وہاں رہنے والی خاتون کی اجازت کے بغیر ان سے ملنے وہاں کوئی نہیں آ سکتا خواہ منتظمین ہی کیوں نہ ہوں۔
یہاں کام کرنے والی ایک رضاکار ثمینہ نے مجھے بتایا: ’اگر کوئی یہاں سے باہر کوئی محبت والا رشتہ رکھتی ہے تو ہمیں اس سے کوئی مطلب نہیں، ہم نہیں پوچھتے۔ وہ یہاں جب تک چاہے رہ سکتی ہے۔ اگر اس کے اہل خانہ اسے لینے آتے ہیں اور وہ اپنی مرضی سے جانا چاہتی ہے تو وہ آزاد ہے۔‘
اگر پولیس اسے زنا کے الزامات میں پکڑنے آئے تو کیا۔ اس کے جواب میں ثمینہ نے کہا: ’ہم اسے پولیس کے حوالے نہیں کریں گے۔‘
لال دوپٹے میں ملبوس عائشہ نے کہا کہ وہ پانچ بار اپنے دو چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ گھر چھوڑ کر یہاں آئی ہیں۔ ہر بار ان کے شوہر انھیں لینے آئے اور ہر بار ان کے ساتھ جو سختی کی گئی اس لیے انھیں پھر بھاگنا پڑا۔
عائشہ نے بتایا کہ اس کے شوہر نے اس پر کسی سے تعلق کا الزام لگایا: ’میرے شوہر نے مجھے کمرے میں بند کر کے تالہ لگا دیا اور مجھے پیٹتا رہا اور زور ڈالتا رہا کہ میں اس تعلق کے بارے میں اعتراف کر لوں۔
’میرے بچے چیختے چلاتے رہے۔ کوئی میری ماں کو بچاؤ۔ لیکن کسی نے نہ سنا کوئی بچانے نہ آیا۔‘
عائشہ نے بتایا کہ اب وہ اپنے شوہر کے پاس واپس جانا نہیں چاہتیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا مستقبل تاریک ہے تاہم وہ خوش قسمتی سے زندہ ہے۔
متوسط طبقے میں اضافے، جدیدیت اور سیکولرازم کی کوششوں کے باوجود پاکستان میں خواتین سے نفرت کرنے والوں سے لڑنا بہت مشکل ہے۔
ایک ایسے سماج میں جہاں روایات کو قائم رکھنے کی کوشش جاری ہو وہاں شہری اور دیہی دونوں علاقوں میں خواتین کو جنس پر مبنی تفریق اور تشدد کا سامنا ہے۔
اور جوں جوں مذہبی کٹرپسندی مضبوط ہوتی رہے گی خواتین کی آزادی پر حملے بڑھتے جائيں گے۔
’پاکستان میں محبت کرنا ایک بڑا گناہ ہے‘
وقتِ اشاعت : December 13 – 2014