سنکیانگ کو ترقی دینے کے لئے چین کوایک گزرگاہ کی ضرورت ہے۔ کیونکہ سنکیانگ اور شنگھائی بندر گاہ کے درمیان فاصلہ 5ہزار کلومیٹر جبکہ گوادر کراچی سے یہ فاصلہ تقریباً دو ہزار کلومیٹر ہے۔ اس لئے چین پاکستان یا ایران کے کسی بندرگاہ سے سنکیانگ کے صوبے کے لئے ایک تجارتی گزرگاہ کی تلاش میں ہے ۔حکومت پاکستان اور پاکستانی وزراء اس کی تعریف اور توصیف میں لگے ہوئے ہیں کہ اس گزرگاہ کی تعمیر سے پاکستان ترقی کرے گا۔ وجہ یہ ہے کہ چین شنگھائی بندرگاہ کے علاوہ کراچی گوادر پورٹ استعمال کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔ پاکستانی حکمرانوں کو یہ معلوم ہے کہ ایران پہلے ہی اسکی منصوبہ بندی کرچکا ہے کہ وہ چین کو یہ سہولیات چاہ بہار کے پورٹ سے آسانی کے ساتھ فراہم کرسکتا ہے۔ چین سے ایران کی بات چیت مکمل ہوچکی ہے اور منصوبہ پر عملدرآمد جلد شروع ہوگا۔ ایران یہ گزرگاہ تعمیر کررہا ہے کہ یہ افغانستان اور وسط ایشیائی ممالک سے گزرتا ہوا چین ترکستان میں داخل ہوگا جس سے چین بھرپور فائدہ اٹھاسکتا ہے۔ اس مقصد کے لئے بھارت، چین، ازبکستان، تاجکستان اور ایران تعاون کررہے ہیں پہلے ایک سڑک تعمیر کی جائے گی اور بعد میں اس کو ریل کے ذریعے چینی ترکستان سے ملادیا جائے گا۔البتہ تبت کے علاقے میں تجارت ہندوستان کے ذریعے ہوگی کیونکہ دنیا یہ تسلیم کرچکا ہے کہ تبت چین کا حصہ ہے اور اس پر دنیا بھر میں کوئی تنازعہ نہیں ہے اور نہ ہی بھارت نے چین کی سرزمین پر کوئی دعویٰ کیا ہوا ہے۔ چاہ بہار اور سنکیانگ کی شاہراہ کا کام دو طرفہ ہوگا۔ ایران اپنی طرف سے سڑک کی تعمیر کا ایک بڑا حصہ مکمل کرچکا ہے اور یہ افغانستان کی سرحد میں داخل ہوچکا ہے۔ایران افغانستان کی مدد کرے گا تاکہ افغانستان اپنے حصے کی سڑک تعمیر کرے اور اسی طرح تاجکستان اور ازبکستان اپنی حصہ کی سڑکیں تعمیر کریں گی جبکہ چین سنکیانگ سے سڑک کی تعمیر شروع کرکے اس کو تاجکستان کے ریگستان تک لے جائے گا۔ اسی طرح ریل کا کام بھی مکمل ہوگا۔ ایران کے پاس لامحدود وسائل ہیں۔ ایران بیرونی امداد اور قرضہ بھی حاصل کرکے چاہ بہار کوایک بین الاقوامی بندرگاہ بنائے گا۔ اس بندرگاہ میں بھارت نے دو برتھوں کو لیز پر لے رکھا ہے اور اس کی ترقی میں مالی اور تکنیکی امداد فراہم کرے گا اس طرح سے بھارت وسط ایشیائی ممالک سے چاہ بہار کے ذریعے تجارت کرے گا۔ ایران اس منصوبے سے 10ارب ڈالر کمانا چاہتا ہے جو وہ آسانی کے ساتھ حاصل کرے گا۔ جہاں تک گوادر کی بات ہے حکومت ایک دہائی کے بعد گوادر کو پینے کا پانی فراہم نہیں کرسکا۔ اس کے علاوہ گوادر کو سڑکوں کے ذریعے ملانے کا کام گزشتہ ایک دہائی سے تعطل کا شکار ہے۔ اس کے آثار نظر نہیں آتے کہ گوادر کو ملانے کے لئے سڑکوں کی تعمیر کا کام بھرپور انداز میں شروع ہوچکا ہے لہٰذا گوادر کا چین کے لئے گزرگاہ کا معاملہ ایک خواب سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ یہ کراچی سے منسلک ہوگا کیونکہ گوادر کی فی الحال ضرورت نہیں۔ لہٰذا یہ بے معنی ہے کہ اس گزرگاہ کا روٹ ژوب ہو یا لورالائی۔ یہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ یہ موقع تقریباً بیس سال بعد آئے گا اس لئے بلوچستان سے سینیٹر صاحب کی دھمکی بے معنی ہے کیونکہ پہلے گوادر بندرگاہ کی تعمیر مکمل ہوگی بعد میں چینی گزرگاہ کا مسئلہ آئے گا۔ فی الحال چین کو اگر ضرورت ہوئی تو وہ کراچی کی بندرگاہ استعمال کرے گا۔ اس بات کا انتظار نہیں کرے گا کہ گوادر کی بندرگاہ مکمل ہو۔ دنیا بھر میں سینکڑوں بندرگاہیں موجود ہیں جن کو چین تجارتی بنیادوں پر استعمال کرسکتا ہے وہ گوادر کا محتاج نہیں ہوگا۔ اس لئے ہم کو اس خوش فہمی میں نہیں ہونا چاہئے کہ چین ہمارا یا گوادر پورٹ کا محتاج رہے گا۔
چین کے تجارتی گزرگاہ
وقتِ اشاعت : December 13 – 2014