|

وقتِ اشاعت :   December 14 – 2014

کراچی : وفاقی حکومت نے خلیجی شاہی خاندان کے اراکین کے لیے بین الاقوامی طور پر محفوظ قرار دیئے گئے انتہائی نایاب عقابوں کے چار برآمدی پرمٹ جاری کیے ہیں جو کہ ناصرف مقامی قوانین بلکہ قدرتی وسائل کے تحفظ کے حوالے سے عالمی برادری سے کیے گئے وعدوں کی بھی خلاف ورزی ہے۔ اس بات کا انکشاف ہفتہ کو ہوا اور ذرائع نے  بتایا ہے کہ حکومت کی جانب سے 43 نایاب عقابوں کے پرمٹ جاری کرکے یورپی یونین کی انتہائی پرکشش مارکیٹ تک مفت رسائی کے لیے دی جانے والی سہولت جی ایس پی پلس کو داﺅ پر لگادیا گیا ہے۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ قدرتی وسائل کے تحفظ کے بین الاقوامی وعدوں پر عملدرآمد نہ کرنے کی صورت میں ملک کو اربوں یورو مالیت کی پی ایس پی پلس سہولت خطرے میں پڑ جائے گی کیونکہ یورپی یونین مانیٹرز کی جانب سے جی ایس پی پلس اسٹیٹس کے عائد شرائط پر نظرثانی کی جاتی رہتی ہے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان کے جی ایس پی پلس اسٹیٹس پر نظرثانی آئندہ چند ہفتوں میں متوقع ہے۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف نے نومبر میں یہ قیمتی عقاب برآمد کرنے کی منظوری دی تھی اور یہ پرمٹ وزارت خارجہ کے ڈپٹی پروٹوکول چیف معظم علی نے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے شاہی خاندان کے اراکین کے لیے جاری کیے تھے۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ دو پرمٹ سعودی شہزادے اور تبوک کے گورنر شہزادے فہد بن سلطان بن عبدالعزیز السعود کے نام پر جاری ہوئے، ایک پرمٹ بحرین کے شاہ حماد بن عیسیٰ بن سلمان الخلیفہ اور ایک پرمٹ دبئی کے ولی عہد شہزادے محمد بن رشید المکتوم کے نام پر جاری ہوا۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ گورنر تبوک کو آٹھ عقاب کی برآمد کا ایک پرمٹ آٹھ نومبر کو دیا گیا مگر سعودی شہزادے کی جانب سے دوبارہ درخواست کیے جانے پر وزیراعظم نے 14 نومبر کو مزید دس عقاب برآمد کرنے کی اجازت دے دی۔ شہزادہ فہد بن سلطان اس سے پہلے بھی رواں برس اس وقت عالمی توجہ کا مرکز بن گئے تھے جب ایک رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ انہوں نے بلوچستان کے ضلع چاغی میں عالمی سطح پر محفوظ قرار دیئے گئے 2100 ہوبارا بسٹرڈ (تلور) پرندوں کا شکار کیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ بحرین کے شاہ حماد کو دس عقاب برآمد کرنے کے لیے پرمٹ سات نومبر کو جاری کیا گیا جبکہ دبئی کے ولی عہد شہزادے محمد بن رشید المکتوم کو پندرہ عقاب برآمد کرنے کی منظوری بیس نومبر کو دی گئی۔ عرب شیخ موسم سرما میں وسط ایشیاء سے ہجرت کرکے پاکستان آنے والے عقابوں کی دو نسلیں شکروں اور پیریگرائن (بڑے باز) میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں جسے وہ ہوبارا بسٹرڈ کے شکار کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ان دونوں نسلوں کے عقابوں کو پکڑنا، تجارت اور برآمد کرنا ملک کے تمام صوبائی جنگی حیات کے قوانین کے تحت ممنوع ہے اور یہاں ایسی باضابطہ مارکیٹس بھی نہیں جہاں ان پرندوں کو فروخت کیا جاتا ہو۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ باضابطہ مارکیٹس نہ ہونے کے پیش ہونے حکومت سے پرمٹ حاصل کرنے والے خلیجی شاہی خاندانوں کے اراکین نے یہ عقاب یقیناً زیرزمین بلیک مارکیٹ سے خریدے ہوں گے جس سے متعلق لوگ ان عقابوں کو غیرقانونی طور پر پکڑتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ایک اچھا عقاب باآسانی ایک کروڑ سے دس کروڑ روپے کے درمیان فروخت ہوجاتا ہے۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ پاکستان نے بقا کے خطرے سے دوچار جنگلی حیات کے تحفظ اور ان کی تجارت کی روک تھام سے متعلق عاہمی معاہدوں جیسے سی آئی ٹی ای ایس اور سی ایم ایس پر دستخط کررکھے ہیں، اسی طرح ملک میں وفاقی سطح پر بھی 2012 میں ایک ایکٹ نافذ کیا گیا تھا جو ان دونوں نسلوں کے عقابوں کی درآمد، برآمد غرض ہر قسم کی تجارت پر پابندی عائد کرتا ہے۔ اس صورتحال میں قدرتی وسائل کے تحفظ کے حامیوں نے خلیجی ریاستوں کے شاہی اراکین کے لیے عقابوں کے برآمدی پرمٹ جاری کرنے کی شدید مذمت کرتے ہوئے انہیں منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ عمل ناصرف جنگلی حیات کے تحفظ کے مقامی قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ بین الاقوامی اداروں کے اجلاسوں میں اس معاملے پر بھی پاکستان کو شرمندگی کا سامنا ہوسکتا ہے۔