|

وقتِ اشاعت :   December 17 – 2014

پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ شدت پسندی کے خلاف کارروائیوں میں کسی بھی سطح پر اچھے اور برے طالبان کی کوئی تمیز روا نہیں رکھی جائے گی اور جب تک ایک بھی دہشت گرد باقی ہے یہ جنگ جاری رہے گی۔ پشاور میں ملک کی سیاسی قیادت کے اجلاس کے بعد امریکہ مشترکہ نیوز کانفرس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’اجلاس اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف یہ جنگ ہماری جنگ ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے ایک مؤثر اور قومی جذبات کا آئنہ دار لائحہ عمل تیار کرکے اس پر فوری عمل درآمد کیا جائے۔‘ وزیرِ اعظم نواز شریف نے کہا کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ پشاور میں برپا کیا جانے والا انسانی المیہ، فرار ہوتے ہوئے دہشت گردوں کی ایک اور بزدلانہ کارروائی ہے جس سے ہمارے قومی عزم اور ولولے میں کوئی دراڑ نہیں ڈالی جا سکے گی۔‘ وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ ’ہم اس بات کا بھی واضح اعلان کرتے ہیں کہ اچھے اور برے طالبان کی کوئی تمیز کسی سطح پر روا نہیں رکھی جائے گی جب تک ایک بھی دہشت گرد باقی ہے یہ جنگ جاری رہے گی۔‘ وزیراعظم نواز شریف نے بتایا کہ اجلاس نے متفقہ فیصلہ کیا ہے کہ وزیرداخلہ کی زیرصدارت کمیٹی بنائی جائے گی جس میں تمام سیاسی جماعتوں کا ایک ایک نمائیندہ موجود ہوگا جو سات دن کے اندر اندر ’نیشنل پلان آف ایکشن ‘ مرتب کرے گا۔ انھوں نے بتایا کہ اس منصوبے کی تیاری میں مسلح افواج اور انٹیلیجنس اداروں کے نمائیندے بھی پوری طرح شریک ہوں گے۔ ’ یہ پلان قومی قیادت کے سامنے سات روز کے اندر اندر پیش کیا جائے گا اور پھر قومی قیادت کی منظوری کے بعد قومی اور عسکری قیادت اسے قوم کے سامنے پیش کریں گے۔‘ وزیراعطم نواز شریف نے یہ اجلاس منگل کو پشاور میں سکول پر شدت پسندوں کے حملے کے بعد طلب کیا تھا جس میں حزب اختلاف کی جماعت تحریک انصاف کے سربراہ سمیت ملک کی تقریباً تمام اعلیٰ سیاسی قیادت نے شرکت کی۔ وزیرِ اعظم نواز شریف نے کہا کہ ’میں قومی قیادت کا ازحد مشکور ہوں۔ جنھوں نے ہر چیز بالائے طاق رکھ کر ایک ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ انھوں نے اس معاملے پر مجھ پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔‘ آپریشن ضرب عضب کے نتائج حوصلہ افزا ہیں۔ کچھ ایسے دہشت گردہیں جو افغانستان میں بھاگ گئے ہیں دونوں حکومتیں مل کر ان کا پیچھا کریں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سرحدوں کے اندر موجود دہشت گردوں سے کس طرح نمٹا جائے اس کا پلان جلد عوام کے سامنے آجائے گا۔ وزیرِ اعظم نے کہا کہ ’اس بارے میں بات ہوئی ہے کہ ان مجرموں کے خلاف کاروائیاں تیز ہونی چاہیں اور جو بڑے مجرم ہیں ان کے خلاف کسی قسم کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’افواج پاکستان کی جانب سے بھی یہ کہا جاتا ہے کہ جو لوگ پکڑے جاتے ہیں اگر انھیں بھی سزا نہیں ملنی تو کس کو سزا ملے گی۔‘ ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ وہ عمران خان اور دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے بھی مشکور ہیں کہ وہ اس اجلاس میں شرکت کے لیے آئے۔
پشاور میں آرمی پبلک سکول پر ہونے والے حملے میں 132 بچے اور سکول سٹاف کے نو ارکان ہلاک ہوئےیں
انتخابات میں دھاندلی سے متعلق عمران خان کے ملک گیر احتجاج کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر نواز شریف کا کہنا تھا کہ ’عمران خان مجھے اعزاز بخشیں کہ میں انہیں چائے پر بلاؤں یا پھر وہ مجھے یہ اعزاز دیں کہ میں ان کے پاس آؤں۔ ہم جمہوری لوگ ہیں اور معاملات پر بات کریں گے۔‘ اس موقعے پر تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہاکہ اس معاملے پر پوری قوم کو اکھٹا ہونا اس لیے ضروری ہے کیوں کہ قوم اکھٹی ہوتی ہے تو جنگ جیتتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ دہشت گردی قومی مسئلہ ہے اور وہ پہلے ہی وزیراعظم سے اس مسئلہ پر حمایت کرنے کا کہہ چکے ہیں۔ عمران خان نے کہا کہ ان کے یہاں آنے کا مقصد سب کو یہ پیغام دینا تھا کہ تمام سیاسی جماعتیں اکھٹی ہیں۔ اس ہنگامی پارلیمانی کانفرنس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ، پاکستانی کشمیر کے وزیرِ اعظم، تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان، شاہ محمود قریشی، جماعتِ اسلامی کے امیر سراج الحق، پیپلز پارٹی کے چوہدری اعتزاز احسن، جمیعتِ علمائے اسلام ف کے غفور حیدری، اعجاز الحق، آفتاب احمد خان شیرپاؤ، مشاہد حسین، اور دیگر رہنماؤں نے شرکت کی۔