|

وقتِ اشاعت :   December 22 – 2014

ایران اور پاکستان کے مشترکہ وزارتی اور معاشی کمیشن نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ دو طرفہ معاہدہ میں سے جرمانہ کی شق ختم کردیں گے۔ دو طرفہ معاہدہ میں ایک شق ایران کی حکومت نے شامل کرایا تھا کہ اگر حکومت پاکستان اپنے علاقے میں مقررہ مدت میں گیس پائپ لائن کو تعمیر کرنے میں ناکام رہی تو اس پر 30لاکھ ڈالر روزانہ جرمانہ عائد ہوگا۔ اس شق کا مقصد ایران، پاکستان گیس پائپ لائن کی تعمیرکو جلد سے جلد مکمل کرنا تھا۔ یہ دونوں ممالک کے مفاد میں تھا کہ گیس پائپ لائن جلد سے جلد تعمیر ہو۔ ایران کو اس سے آمدنی ملے اور پاکستان کو ضرورت کے مطابق گیس۔ مگر مسلم لیگ کی حکومت کو پہلے سے ہی ایران، پاکستان گیس پائپ لائن پر تحفظات تھیں کیونکہ یہ گیس پائپ لائن پنجاب سے نہیں گزرتی تھی جس کی بناء پر پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز نے اس کو ’’ایک فراڈ‘‘ قرار دیا تھا۔ دوسری جانب یہ معاہدہ آصف علی زرداری اور پی پی پی کی حکومت نے کیا تھا جو نواز شریف اور ان کی حکومت کو پسند نہیں آیا۔ اس لئے روز اول سے مسلم لیگ کی حکومت یہ فیصلہ کرچکی تھی کہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن پر عملدرآمد نہیں کر ے گا چاہے کچھ بھی ہو۔ دوسری جانب سعودی عرب کا اثر و رسوخ پاکستان پر بڑھ گیا انہوں نے ڈیڑھ ارب ڈالر مقدارکی تیل ادھار میں حکومت کو فراہم کی جس پر مسلم لیگ کی حکومت بضد ہوگئی کہ وہ پائپ لائن کے منصوبے پر عمل نہیں کرے گا۔ شایدیہ پنجاب کے مفادات کے خلاف ہے، ان کو اس بات کی پرواہ نہیں کہ یہ بلوچستان اور سندھ کے مفاد میں ہے کہ گیس پائپ لائن تعمیر ہو اور دور دراز علاقوں کو گیس کی سہولیات میسر ہوں۔ جب وقت قریب آیا اور جرمانہ کی رقم ادا کرنے کی نوبت آنے والی تھی تو حکومت کا رویہ بدل گیا اور ایران پر دباؤ ڈالا کہ وہ معاہدے میں سے جرمانے کی شق ختم کرے اور پاکستان آئندہ دو سالوں میں گیس پائپ لائن پر عملدرآمد کرے گا اور اس کو مکمل کرے گا۔ پاکستان نے یہ عذر پیش کی کہ بینک سے قرضہ نہ ملا، کوئی کمپنی اس پر کام کرنے کو تیار نہیں ، بین الاقوامی منڈی سے آلات خریدنے مشکل ہوگئے تھے جس کی وجہ سے یہ کام مکمل نہ ہوسکا۔ دوسری جانب ایران کی حکومت نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ 50کروڑ ڈالر کا قرضہ فراہم کرے گا،25 ،25کروڑ کی دو قسطوں میں۔ وہ پیشکش بھی ایران نے واپس لے لی تھی۔ اب پاکستان نے وعدہ کیا ہے وہ اپنے وسائل سے 70کلومیٹر گیس پائپ لائن ایرانی سرحد سے گوادر تک تعمیر کرے گا اور بقیہ 700کلومیٹر پائپ لائن نئی پائپ لائن کے منصوبے کا حصہ ہوں گے جو گوادر سے نواب شاہ تک تعمیر کی جائے گی۔ اس ایل این جی پائپ لائنمنصوبے میں چینی بینک اور کمپنی دل چسپی لے رہے ہیں اور مذاکرات جاری ہیں جس کی رو سے 700کلومیٹر طویل ایل این جی پائپ لائن گوادر سے نواب شاہ تک تعمیر ہوگی اور ایران گیس پائپ لائن اسی منصوبہ کا حصہ ہوگا۔ پاکستان آج کل توانائی کے بحران کا سامنا کررہا ہے جس کی وجہ سے اکثر کارخانے بند ہیں۔ گیس کی کمی کے باعث پنجاب کے اکثر سی این جی اسٹیشن بند ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ کو بھی سی این جی کی فراہمی بند ہوگئی ہے۔ اب امید ہے کہ نئے منصوبے کے تحت سندھ اور بلوچستان کو بھی گیس کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی۔