|

وقتِ اشاعت :   December 22 – 2014

اطلاعات ہیں کہ حکومت دہشت گردی کو شکست دینے کے لئے فوجی عدالتوں کے قیام پر غور کررہی ہے اگر یہ فوجی عدالتیں ان علاقوں میں ہوں جہاں پر آپریشن چل رہا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ویسے بھی فاٹا میں قانون نام کی کوئی چیز نہیں ہے وہاں پر فوجی قوانین اور فوجی عدالتیں ہوں تو عام لوگوں کوکوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ اگر اعتراض ہوگا بھی تو صرف دانشور اور صحافی کو لیکن اگر حکومت نے پورے ملک میں فوجی عدالتیں بنائیں تو اس کی زبردست مزاحمت ہوسکتی ہے اور عام لوگ، جمہوری سیاسی پارٹیاں اس کی زبردست مخالفت کریں گی۔ امیدہے کہ پارلیمانی کمیٹی پورے ملک میں فوجی عدالتوں کے قیام کی حمایت نہیں کرے گی اور نہ ہی فوجی حکام اور حکومت اس پر بضد ہوگی کہ ملک بھر میں فوجی عدالتیں قائم کی جائیں۔ ملک بھرمیں فوجی عدالتوں کے قیام کا صرف یہ مطلب لیا جائے گا کہ ملک میں مارشل لاء کا نفاذ کردیا گیا ہے اور آئین کو توڑ دیا گیا ہے یا آئین کو دہشت گردی کے بہانے معطل کردیا گیا ہے۔ایسی صورت میں ملک ایک گہرے آئینی بحران میں پھنس جائے گا اور اس کی بین الاقوامی ساکھ متاثر ہوسکتی ہے۔افسوسناک بات یہ ہے کہ حکمرانوں اور مقتدرہ نے خود اپنے ہاتھوں سابق مجاہدین اور حال کے طالبان کو مضبوط بنایا۔ ان کو فاٹا میں سول انتظامیہ اور جرگہ اور قبائلی نظام پر ترجیح دی تاکہ وہ جہاد کریں اور سول انتظامیہ اور قبائلی عمائدین ان کے تابع رہیں۔ یہ سب کچھ حکمرانوں اور مقتدرہ نے خود کیا ،پہلے مجاہدین اور بعد ازاں طالبان کو مضبوط بنایا تاکہ افغانستان پاکستان کا پانچواں صوبہ بن جائے۔ بہانہ روسی افواج سے لڑنے کا تھا، روسی افواج کی واپسی کے بعد افغانستان اور ملحقہ قبائلی علاقے میں انارکی پھیل گئی اور سرکاری سرپرستی میں طالبان کی حمایت اور فوجی امداد کی گئی تاکہ وہ افغانستان پر قابض ہوجائیں۔ طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد بھی جمعیت علمائے اسلام کو دو سرحدی صوبوں بلوچستان اور کے پی کے پر مسلط کردیا گیااور اس طرح سے طالبان کے لیے کارروائیاں کرنے میں آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ اب دہشت گردی کے واقعات کے بعد بلوچستان اور کے پی کے کی حکومتیں اور عوام یہ مطالبہ کررہی ہیں کہ افغان مہاجرین اور غیر ملکی افغان تارکین وطن کو واپس اور جلد افغانستان بھیجا جائے کیونکہ ان کی موجودگی سے ملک کی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں۔ بلوچ پہلے دن سے یہ مطالبہ کرتے آرہے تھے اور اب پورا ملک ان افغانوں کی واپسی کا مطالبہ کررہا ہے۔ بلکہ حکومت اور مقتدرہ بھی یہ چاہتی ہے کہ افغانوں کو ان کے ملک واپس بھیجا جائے اور جلد بھیجا جائے۔ اس سے دہشت گردی کے واقعات میں بڑی حد تک کمی آئے گی ۔گمان ہے کہ افغان مہاجرین ہی دہشت گردوں کو پناہ دیتے ہیں۔ بلوچ کسی دہشت گرد کو پناہ دینے اور ان کو سہولیات دینے کا سوچ بھی نہیں سکتا ،اس لئے حکومت سب سے پہلے افغانوں کو واپس اپنے وطن بھیج دے تاکہ دہشت گردوں کو پناہ گاہیں حاصل نہ ہوں۔ عوام حکومت سے تعاون کے لئے ہمیشہ تیار رہتی ہے بشرطیکہ اس کی پالیسیاں عوام دشمن نہ ہوں۔ عوام کو مفت میں پریشان نہ کیا جائے۔ فوج مکمل آپریشن کرے اور سیکورٹی کی اطلاعات پر کرے کیونکہ اکثر معلومات سیکورٹی والوں کے پاس ہیں اس سلسلے میں پولیس کو زیادہ متحرک اورمضبوط بنایا جائے تاکہ وہ ہر گلی اور ہر کوچہ پر نظر رکھے۔ یہ کام فوج اور رینجرز نہیں کرسکتے۔ وہ پولیس کا نعم البدل نہیں ہوسکتے پولیس سول سوسائٹی کا حصہ ہے اور وہ سماج کے ہر اچھے برے رجحانات کو سمجھنے کے قابل ہے۔ سالوں گزرنے کے بعد بھی رینجرز کو وہ کامیابیاں نہیں مل سکیں جو پولیس کو مل سکتی ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ فوجی عدالتوں کو سول سوسائٹی سے دور رکھا جائے اور یہ عدالتیں صرف آپریشن کے علاقوں تک محدود ہوں۔ پولیس کے نظام کو زیادہ بہتر بنایا جائے بلوچستان اور کراچی سے ایف سی اور رینجرز کو واپس بلایا جائے اور مکمل سویلین رول قائم کی جائے تاکہ طویل مدت کی منصوبہ بندی ہوسکے