ایک دور تھا کہ طالبعلم کا اچھے نمبروں سے پاس ہونا ایک اعزاز کی بات سمجھا جاتا تھا اسکے پاس ہونے پر اسکے گھر والے مٹھائیاں تقسیم کرتے۔ اور خوشی کا یہ جشن صرف گھر تک محدود نہیں ہوتا تھا بلکہ اسے پورے محلے تک بڑھایا جاتا تھا۔ اور ہر چھوٹا بڑا اس خوشی میں شامل ہو جاتا تھا اور اسکے والدین فخر سے سر بلند کرکے اس بات کا علان بڑے بڑے محفلوں میں کیا کرتے تھے کہ اسکا بیٹا اعلیٰ نمبروں سے پاس ہوا ہے اور بیٹا بھی خوشی سے پھولے نہ سماتا کہ اسکی محنت رنگ لائی ہے اور اس نے اپنے کلاس میں اچھی پوزیشن لی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تعلیم کا معیار گرتا چلا گیا ، ڈگریوں کا حصول بڑھتا گیا اور وقت کے ساتھ ساتھ امتحانی مراحل کو کامیابی سے طے کرنے پر بھی خوشی کا کوئی جھلک بھی چہرے پر دکھائی نہیں دیتا۔ کالج سے لیکر یونیورسٹی کی سطح تک سالانہ لاکھوں نوجوان ڈگری بغیر کسی دقت کے حاصل کر لیتے ہیں اور اسی کی دیکھا دیکھی میں پرائیوٹ اداروں کی بھی بھرمار ہو گئی۔ گورنمنٹ اداروں کی خستہ حالی دیکھ کر لوگوں نے اپنے بچوں کو پرائیوٹ اداروں میں بھیجنا شروع کیا۔ جس نے نہ صرف گورنمنٹ اداروں سے اپنی کارکردگی کو بہتر انداز میں دکھانے کی کوشش کی بلکہ اسکے ساتھ ساتھ سالانہ اچھے نمبروں سے پاس ہونے والے طلباء کی تعداد بھی زیادہ ہوتی چلی گئی۔ لیکن جوں جوں وقت گزرتا چلا گیا۔ جعلی ڈگریوں کا حصول بڑھتا گیا اور بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوگیا تو لوگ جعلی ڈگریاں لیکر اور سفارش یا رشوت کے بل بوتے پر اچھے اچھے عہدوں پر فائز ہونے لگے۔ اس نئے ٹرینڈ نے محنتی نوجوانوں کے لئے نہ صرف اداروں تک رسائی کو مشکل کردیا بلکہ اسکے ساتھ ساتھ معاشرے میں تعلیم ذریعہ روزگار کا زیادہ، علم کاکم شمار ہونے لگا۔ پرائیوٹ ادارے بھی کاروباری مرکز بن گئے۔ یوں اس نئی جہت نے نوجوانوں کے لئے علم کے حصول کو پس پشت ڈال دیا اور نوجوان بھی ڈگری کے حصول میں میدان میں ٓگئے۔ اور ڈگریوں کا یہ کاروبار اتنا چل نکلا کہ ٓج کے دور میں ایک نائی اور موچی بھی ماسٹر ڈگری ہولڈر ہی ملے گا۔ اور ڈگریوں کے معیار کو گرانے کا کام یونیورسٹیوں اور پرائیوٹ اداروں نے بخوبی انجام دیا۔ اور یونیورسٹی کی سطح پر پرائیوٹ ماسٹرز اور بیچلر کا رجحان بھی فروغ پاتا گیا۔ اور علم کہیں سائیڈ پر بیٹھا یہ تماشا دیکھتا رہا۔ اسی صورتحال کے تناظر میں نوجوانوں سے پوچھا جائے کہ آپکی تعلیم کتنی ہے۔ بڑے فخر سے۔۔ ایم اے کیا ہوا ہے کس مضمون میں۔ یار مضمون کا پتہ نہیں بس دوست کو اپنی جگہ امتحان میں بٹھایا۔ کمال کرتے ہو ڈگری لینا ہے کونسا شیخ سعدی بننا ہے۔ جناب کی بات میں وزن بہت ہے۔۔ اسکے علاوہ یونیورسٹی اور بورڈ نے ایسے بے شمار گمنام اداروں کو لائسنس جاری کر دئیے جو یونیورسٹی یا بورڈ کو سالانہ بھاری بھرکم رقم فراہم کرتے ہیں اور ان اداروں میں ہزاروں کی تعداد میں تعلیم سے نا آشنا بی ایڈ، ایم ایڈ، اور ایجوکیشن کے دیگر اہم شعبوں کے امیدوار بغیر کلاس لئے پاس کئے جاتے ہیں۔ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ انہی اداروں کی چیک اینڈ بیلنس کے لئے یا تو کوئی واضح پالیسی بنائی نہیں گئی ہے یا تو ضرورت محسوس نہیں ہوئی ہے۔ اور مزید مزے کی بات یہ ہے کہ یہی ڈگری ہولڈر امیدوار کل محکمہ تعلیم کے کسی اعلیٰ پوزیشن یا ٹیچنگ پوزیشن پر تعینات ہو کر کیا آؤٹ پٹ دیں گے۔ اور اگر دیکھا جائے تو یہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اس شعبے کو زوال کی جانب لے جایا گیا ہے اور اسے ایک منافع بخش کاروبار کا شکل دے دیا گیا ہے۔ جب تعلیم کے شعبے پر تمام تجربے کئے گئے ا ور جب محسوس ہوا کہ ایم اے کی اہمیت پہلے جیسی نہیں رہی تو سوچا گیا کہ کیسے اس کو مزید منافع بخش بنایا جائے تو ایچ ای سی(ہائیر ایجوکیشن کمیشن) کی جانب سے NTS (نیشنل ٹیسٹنگ سروس) کی شکل میں ایک ادارہ تشکیل دے دیا گیا۔ جسکی ذمہ داری میں اسکالر شپ، داخلہ پروگرام یا بیروزگاروں کا امتحان لینا شامل کیا گیا۔ شروع شروع میں یہ ادارہ کافی فعال کردار ادا کر تا رہا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ادارہ بھی اپنا وقار کھوتا گیا بلکہ اب یہ ادارہ کافی منافع بخش بن چکا ہے اور اسکی کمائی کا سب سے اہم ذریعہ وہ بے روزگار ہیں جو ماسٹرز یا گریجویشن کی ڈگریاں لئے ہر ٹیسٹ کے لئے اپلائی کرتے ہیں۔ گو کہ بھاری بھرکم فیس بے روزگاری اور غربت کے اس دور میں اس امید پر جمع کرتے ہیں کہ کہیں قسمت کی دیوی ان پر مہربان ہو لیکن این ٹی ایس کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے اکثر و بیشتر نوجوان فیل ہوجاتے ہیں جسکی حالیہ مثال لسبیلہ یونیورسٹی آف ایگریکلچر واٹر اینڈ میرین سائنس کے ٹیسٹ تھے جس میں کمپیوٹر سیکشن کے امیدواروں کے لئے شماریات کے سوالات لائے گئے تھے جسکا نتیجہ اس ٹیسٹ میں شامل تمام امیدواروں کی فیل ہونے کی صورت میں سامنے آئی۔ دوسری غلط پالیسی انکی جانب سے یہ بنائی گئی ہے کہ ٹیسٹ کو انگلش پیٹرن میں بنایا جاتا ہے جسکی وجہ سے انگلش سے نابلد اکثر نوجوان ٹیسٹ پاس کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ جبکہ تیسری غلط پالیسی انکی جانب سے یہ بنائی گئی ہے کہ کسی بھی ٹیسٹ کو منعقد کرانے سے پہلے نہ امیدواروں کو کوئی سلیبس فراہم کیا جاتا ہے اور نہ ہی انہیں کوئی پیٹرن پیپر دیا جاتا ہے جس سے نہ صرف اس شعبے کے لئے پیپر دینے والے تمام نوجوان فیل ہو جاتے ہیں بلکہ اسکے ساتھ ساتھ اس ادارے کو یہ فائدہ ہو جاتا ہے کہ وہ اسی شعبے کا ٹیسٹ دوبارہ منعقد کراکر امیدواروں سے بھاری بھرکم پیسہ وصول کرتا ہے بلوچستان کی سطح پر محکمہ ایجوکیشن کی جانب سے 4ہزار سے زائد پوزیشنوں کے لئے ٹیسٹ کا انعقاد این ٹی ایس کے سپرد کر دیا گیا ہے۔اور اس ادارے نے اپنے کو مزید مستحکم بنانے اور منافع کمانے کی چکر میں بیروزگار نوجوانوں کے لئے مشکلات پیدا کردی ہیں اور ایک درخواست جمع کرانے کی 1000 روپے رکھی ہے۔اس اقدام کے خلاف بیروزگار نوجوانوں کی جانب سے آواز اٹھائی جا رہی ہے۔اب جبکہ ایک نیا ادارہ BTS (Balochistan Testing Service)کے نام سے وجود میں آیا ہے جو اس کاروبار کے شعبے کو مزید وسعت دینے کے لئے اپنا کردار ادا کرے گا۔ اداروں اور امتحانات کے موجودہ معیار کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا آسان ہے کہ آنے والے وقتوں میں ایسے بے شمار ادارے معرض وجود میں آئیں گے جنکا کام تعلیم یا میرٹ فراہم کرنا نہیں ہوتا بلکہ بھرپور طریقے سے بزنس کرنا ہے۔ اس سے اچھا یہ نہیں ہوتا کہ تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لئے کالج یا یونیورسٹی کی سطح پر ماہر اساتذہ و پروفیسر تعینات کرکے ہونہار نوجوان پیدا کرتے اور انکی صلاحیتوں سے استفادہ کیا جاتا۔ اس اقدام سے نہ صرف نقل کا رجحان ختم ہوتا بلکہ پڑھے لکھے نوجوان میدان میں آتے اور انہیں ضمانت دی جاتی کہ ماسٹر ڈگری حاصل کرنے کے بعد انہیں کسی بھی ٹیسٹنگ سروس سے گزرنے کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ انکے اس علم اور ہنر سے استفادہ کرنے کے لئے انہیں اداروں میں کپھایا جائے گا جہاں وہ اپنے مستقبل کو بہتر طور پر محفوظ سمجھتے ہوئے اپنی تمام تر توجہ اسی تعلیمی سیٹ اپ پر لگا لیتے نہ کہ صرف ڈگری پر ہی اکتفا کر لیتے۔