|

وقتِ اشاعت :   December 24 – 2014

دہشت گردی کے خلاف مہم میں روز بروز تیزی آرہی ہے۔ کراچی، شمالی وزیرستان اور خیبرایجنسی میں آپریشن جاری ہے جس میں لاتعداد دہشت گردوں کا پتہ لگایا گیا اور ان کا خاتمہ کیا گیا۔ سیاسی طور پر پورا ملک صرف ایک نکتے پر متحد ہورہا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی نہ صرف جاری رکھی جائے بلکہ اس میں تیزی لائی جائے۔ پوری قوم کو یہ جائز شکایت ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن دیر سے شروع کیاگیا جس سے ملک اور قوم کو بہت زیادہ نقصان پہنچا۔ ابھی بھی کچھ حلقے صرف طالبان کے خلاف آپریشن کی حمایت کررہے ہیں ان فرقہ پرستوں کے خلاف نہیں جنہوں نے فرقہ پرستی کی بنیاد پر ہزاروں انسانوں کو شہید کیا۔ صرف اس لئے ان کو شہید کیا گیا کہ ان کا تعلق ایک مخصوص فرقے سے تھا۔ حالیہ مہینوں میں ان فرقہ پرستوں نے قادیانیوں، بوہرہ اور عیسائیوں کو بھی نشانہ بنایا۔ اس لئے ضروری ہے کہ حکومت تمام دہشت گردوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کرے۔ آج کل یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ پنجابی طالبان اور پنجاب میں موجود بعض دہشت گرد گروہوں کے خلاف کارروائی نہیں ہوگی۔ ان کے اکثر لیڈر اور رہنما ء حکومت کے حفاظتی تحویل میں ہیں۔ آئے دن ان کی نظر بند ی میں توسیع کی جارہی ہے۔ دہشت گرد اس ملک اور قوم کے لئے خطرہ ہیں لہٰذا ان میں تمیز نہیں کرنا چاہئے کہ وہ فاٹا کے طالبان ہیں یا پنجابی طالبان ہیں۔ ہم اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ مدرسے دہشت گردوں کا مرکز نہیں ہیں مگر بعض مدارس میں دہشت گردی کی تعلیم جہاد کے نام سے دی جارہی ہے۔ یہ مدرسے ریکروٹمنٹ کے مراکز ہیں۔ یہاں پر جہادی بھرتی ہوتے ہیں، یہاں سے ان کو چنا جاتا ہے۔ مدرسہ سے محلق ہاسٹل میں اکثر دہشت گرد ٹھہرتے ہیں ۔بعض مدارس میں دھماکہ خیز مواد موجود تھا اور پھٹ گیا جس سے کئی ایک ہلاکتیں ہوئیں لیکن ان کی رپورٹ آج تک عوام کے سامنے نہیں لائی گئی۔ ان میں سے ایک مدرسہ کوئٹہ کے کچلاک میں ،دوسرا ملتان کے قریب تھا جہاں پر بڑے پیمانے پر بارودی اور دھماکہ خیز مواد رکھا گیا ۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ پہلے تو ان کے مالی معاملات کی چھان بین کرے کہ اربوں روپے خرچ کرنے کے بعد بھی حکومتی اسکول بے کار ثابت ہوئے جب کہ نیم خواندہ لوگ مدرسے کھولتے ہیں تو وہ کامیاب ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے ان کے فنڈ سرکاری اسکولوں سے بہت زیادہ ہیں، ان کا کوئی مقابلہ نہیں۔بنیادی طور پر مدارس پرنگاہ رکھنے کی ضرورت ہے کہ وہاں سے جہادی عناصر بھرتی نہ ہوں اور دہشت گرد ان مدرسوں کوہاسٹل کے طور پر استعمال نہ کریں۔ بلکہ ہم یہ جائز طور پر مطالبہ کرتے ہیں کہ تمام مدارس کو حکومت کے کنٹرول میں لیا جائے اور حکومت پاکستان یا صوبائی حکومتیں ان کا انتظام چلائیں۔ حکومت کا فرض ہے کہ بچوں کو مفت تعلیم دلائے اور اس کے لئے تمام مدارس کو حکومت کی تحویل میں لیا جائے تاکہ یہ خدشہ نہ رہے کہ وہاں پر جہادی طالب علم بھرتی ہوں۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ ان تمام اڈوں کا صفایا کیا جائے جہاں پر مسلح جہادی موجود ہیں۔ خصوصاً جنوبی پنجاب میں جہاں پر بڑے پیمانے پر لوگوں کو جہاد کے نام پر بھرتی کیا جارہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ان تنظیموں پر بھی نگاہ رکھی جائے جو دہشت گرد تنظیموں کے قریب ہیں اور ان کی سیاسی اور مالی امداد کرتے ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ لال مسجد کے سابق خطیب کو نہ صرف عہدے سے ہٹایا جائے بلکہ اس کو دہشت گردوں کی حمایت کرنے پر گرفتار کیا جائے۔