خفیہ اداروں کی نشاندہی پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے دارالحکومت اسلام آباد سے گرفتار ہونے والے بیس سے زائد افراد کو تفتیش کے لیے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔
اسلام آباد پولیس کے ترجمان محمد نعیم نے بی بی سی کو بتایا کہ حراست میں لیے جانے والے افراد میں زیادہ تر افغانی ہیں۔
اسلام آباد پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ دوران تفتیش اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ ان کے شدت پسند تنظیموں کے ساتھ تعلقات ہیں۔
ان افراد سے تفتیش کرنے میں خفیہ اداروں کے اہلکار بھی شامل ہیں۔ اسلام آباد پولیس کے ترجمان کے مطابق پہلے مرحلے میں اُن علاقوں میں سرچ آپریشن شروع کیا گیا ہے جن علاقوں میں افغان اور کچی بستیاں واقع ہیں۔
تین روز تک جاری رہنے والے اس سرچ آپریشن کے دوران چار سو کے قریب مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔
پولیس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ حراست میں لیے گئے افراد میں سے ابھی تک صرف چند افراد کو رہا کیا گیا ہے جبکہ باقی افراد ابھی تک قانون نافذ کرنے والے اداروں کی تحویل میں ہیں جن سے پوچھ گچھ کا عمل جاری ہے۔
جن علاقوں میں ابھی تک سرچ آپریشن جاری ہے اُن میں زیادہ تر علاقے اسلام آباد کے گردونواح میں واقع ہیں۔ ان میں ترلائی، بارہ کہو، ترنول، سہالہ اور تلہاڑ گاؤں شامل ہیں۔ پولیس کے ساتھ ساتھ رینجرز کے اہلکار بھی اس سرچ آپریشن میں حصہ لے رہے ہیں۔
پولیس اہلکار کے مطابق حراست میں لیے جانے والے افراد کے قبضے سے اسلام آباد میں واقع حساس عمارتوں کے نقشے اور تصاویر بھی برآمد ہوئی ہیں جن سے تفتیش کا عمل جاری ہے۔
ان افراد سے تفتیش کرنے والی ٹیم میں شامل ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ان سے افغانستان کی موبائل فون سمییں بھی برآمد ہوئی ہیں جنہیں یہ لوگ سانحہ پشاور کے روز تک استعمال کرتے رہے ہیں۔ اہلکار کا کہنا ہے کہ پشاور سانحے کے بعد یہ موبائل سمیں استعمال نہیں ہوئیں۔
اہلکار کے مطابق جتنا عرصہ یہ سمیں استعمال میں رہی ہیں اُس کے ریکارڈ سے متعلق پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو ہدایات جاری کردی گئی ہیں۔
اہلکار کے مطابق ان افراد کے خلاف انسداد دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمات درج کیے جائیں گے اور ملزمان سے کی جانے والی اب تک کی تفتیش کی ابتدائی رپورٹ وزارت داخلہ کو بھی بھجوا دی گئی ہے۔
اسلام آباد میں سرچ آپریشن، 400 افراد حراست میں
وقتِ اشاعت : December 25 – 2014