ایران اور پاکستان دونوں ممالک نے یہ فیصلہ کرلیاہے کہ افغان مہاجرین کو اگلے سال کے آخر تک وطن واپس بھیج دیا جائے گا۔ یہ معاہدہ اقوام متحدہ کے ادارے برائے مہاجرین کے ساتھ گزشتہ سال ہوگیا تھا۔ ایران اور پاکستان نے افغانستان کی داخلی صورت حال کو پیش نظر رکھ کر یہ فیصلہ کیا تھا کہ افغان مہاجرین کو دو سال تک ان دونوں ممالک میں رہنے دیا جائے اور اس کے ساتھ رضاکارانہ بنیاد پر ان کی واپسی کی عزت افزائی کی جائے تاکہ وہ جلد سے جلد اپنے وطن واپس جاکر آباد ہو سکیں۔ چونکہ معاہدہ ان ممالک اور اقوام متحدہ کے ساتھ ہوچکا اس لئے افغان مہاجرین کی واپسی کا ایک سال انتظار کیا جائے تاکہ نئی افغان حکومت ان کی آبادکاری کا بندوبست کرسکے۔ لیکن حکومت پاکستان کے لیے یہ ضروری ہے کہ ان کی واپسی کی تیاریاں ابھی سے شروع کی جائیں۔ ان مہاجرین کو بڑے بڑے شہروں سے نکال کر سرحدوں کے قریب کیمپوں میں رکھا جائے تاکہ وقت آنے پر ان کی واپسی میں آسانی ہو۔ آخر وقت میں ان کو تلاش نہ کیاجائے ان کو یہ یقین دلایا جائے کہ پاکستان اور ایران ان کے وطن نہیں ہیں۔ہر قیمت پر ان کو واپس اپنے گھروں کو جانا ہے۔ دوسرا سب سے بڑا مسئلہ غیر قانونی تارکین وطن ہیں جو غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہوئے اور یہاں کاروبار کررہے ہیں۔گزشتہ کئی دہائیوں سے حکومت پاکستان نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔ اب صورت حال بدل چکی ہے۔ موجودہ صورتحال میں افغان دہشت گرد ہیں۔ پاکستان کے لیے فوجی اثاثے نہیں ہیںیہ اکثر دہشت گردی کے واقعات میں ملوث پائے گئے۔یا انہوں نے دہشت گردوں کو سہولیات فراہم کیں اور ان کی امداد کی۔ کوئی پاکستانی بلوچستان، سندھ اور پنجاب میں افغان دہشت گردوں کی مدد کی سوچ نہیں سکتا۔تمام خود کش بمبار اوران کو سہولیات فراہم کرنے والے افغا ن خصوصاً غیر قانونی تارکین وطن پائے گئے ہیں۔بلوچستان نیشنل پارٹی نے یہ صحیح موقف اختیار کیاہے کہ جب تک افغان بلوچستان میں موجود ہیں صوبے میں مردم شماری نہ کرائی جائے۔ افغان کو یہ حق نہیں ہے کہ ان کی مردم شماری بحیثیت پاکستانی کی جائے۔ وہ غیر قانونی تارکین وطن ہیں۔ان کو جلد سے جلد افغانستان واپس بھیجا جائے۔ پاکستان اور پاکستانی عوام نے بہت زیادہ نقصان اٹھایا ہے۔یہ معیشت پر قابض ہوگئے ہیں۔مقامی مزدوروں کو روزگار کے ذرائع سے بے دخل کردیا گیا ہے۔ افغانستان سے ہیروئن کی تجارت بلوچستان کے ذریعے ہورہی ہے۔ ڈرگ مافیا کوئٹہ شہرمیں بڑے پیمانے پر رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کررہی ہے۔ انہوں نے ریلوے کی زمین خریدی ہے اور اس پر شاپنگ مال تعمیر کرنے کا منصوبہ بنارہے ہیں۔ہم نے ان کالموں میں یہ مشورہ دیا ہے کہ غیر قانونی تارکین وطن کے تمام اثاثے برحق سرکار ضبط کئے جائیں تاکہ ان سب کو یہ یقین ہوجائے کہ بلوچستان میں ان کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔موجودہ صورت حال کا تقاضا ہے کہ صوبائی حکومت ان تمام غیر ملکی تارکین وطن کو گرفتار کرے اور ان کو سرحدی علاقوں کے کیمپوں میں منتقل کیا جائے جہاں سے ان کو ملک بدر کردیا جائے۔ یہ صوبائی حکومت کی قانونی ذمہ داری ہے کہ وہ غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف بھرپور کارروائی فوری طور پر شروع کرے اس کے لئے وفاق سے اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔اگر وفاق اس کی مخالفت کرے تو اس مسئلے کو پارلیمان اور عوام کے سامنے لایا جائے اور یہ بتایا جائے کہ کیوں افغان غیر قانونی تارکین وطن کی ناجائز طور پر پشت پنائی کی جارہی ہے۔ اگر وفاق کو افغانوں کی موجودگی اسلام آباد میں پسند نہیں ہے اور کے پی کے حکومت کو ان کی موجودگی پشاور میں پسند نہیں ہے توبلوچستان کی صوبائی حکومت کیوں خاموش ہے اور ان کے خلاف کارروائی کا آغاز کیوں نہیں کرتی اس کے باوجود کہ اکثر افغان دہشت گردی کے واقعات، ہیروئن اور اسلحہ کے ناجائز کاروبار میں ملوث پائے گئے ہیں جس سے ریاست پاکستان کو خطرات لاحق ہیں۔