|

وقتِ اشاعت :   December 26 – 2014

سیاسی قیادت نے کھل کر دہشت گردی کے خلاف اعلان جنگ کردیا ہے۔ اس میں تمام سیاسی پارٹیاں متحد ہیں کہ دہشت گردوں کے خلا ف بھرپور کارروائی کی جائے۔ میڈیا پر دہشت گردوں کے پروپیگنڈے پر پابندی لگادی گئی ہے ۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا ان دہشت گردوں کے نظریات کے پرچار نہیں کرسکتے۔ تاہم حکومت کو یہ بتانا پڑے گا کہ کون دہشت گرد ہے اور دہشت گردوں کی مکمل اور واضح تعریف کرنی پڑے گی تاکہ میڈیا کے لیے کوئی ابہام نہ ہو۔ دہشت گردوں کو شناخت کیا جائے اور ان کے نظریات کی پرچار پر پابندی لگائی جائے۔ اس سے قبل ان تمام دہشت گرد تنظیموں کی نشاندہی کی جائے اور خصوصاً ان تنظیموں پرجنہوں نے پابندی لگنے کے بعد دوسرے اور نئے ناموں سے کام کرنا شروع کردیا ہے۔ ان سب پر پابندی لگائی جائے۔ سب سے اہم بات فرقہ پرست تنظیموں پر پابندی لگائی جائے اور ان کے تمام رہنماؤں کو گرفتار کیا جائے اور ان پر خصوصی عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں جو صر ف دوسرے فرقے کے لوگوں کو کافر قرار دیتے ہیں اور اخبارات پر دباؤ ڈالتے ہیں کہ ان کے فرقہ پرستانہ بیانات کو چھاپ دیں۔ یہ بھی ماضی قریب میں دیکھا گیا ہے کہ بعض فرقہ پرست تنظیموں اور رہنماؤں کی سرکاری اہلکار پشت پناہی کرتے تھے۔ سیاسی قیادت کے فیصلوں کا اعلان وزیر اعظم نے رات گئے کیا جس میں خصوصی کورٹ کے قیام کا ذکر تھا۔ پہلے یہ خیال کیا جارہا تھا کہ ملک بھر میں فوجی عدالتیں قائم کی جائیں گی مگر جب سرکاری اعلان سامنے آیا تو وہ فوجی عدالتوں کے بجائے خصوصی عدالتوں کا قیام ہے جن کی سربراہی فوجی افسران کریں گے۔ یہ عدالتیں صرف دوسال کے لیے ہوں گی اور صرف دہشت گردی سے متعلق مقدمات کی سماعت کریں گی۔ چونکہ پاکستان کے آئین میں فوجی عدالتوں کے قیام کی گنجائش نہیں ہے اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ دہشت گردی کی خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں جو جلدی سماعت کریں اور مقدمات کو نمٹائیں ۔دریں اثناء چیف جسٹس کی زیر صدارت ایک اجلاس ہوا جس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ دہشت گردی سے متعلق مقدمات کو اولیت دی جائے گی اور ان کی اپیل کی سماعت جلد اور فوری ہوگی۔ انداز ہ ہے کہ 10 سے 15 فیصد اپیل اعلیٰ عدالتوں میں زیر سماعت ہیں جن پر جلد فیصلہ کیا جائے گا۔ اسی طرح صوبائی چیف جسٹس صاحبان کو بھی یہ ہدایات جاری کی گئیں ہیں کہ وہ دہشت گردی کے مقدمات کو الگ کریں اور ان کے فوری سماعت کا بندوبست کریں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بعض پولیس افسران اور تفتیشی افسران نے جان بوجھ کر بعض عام مقدمات کو دہشت گردی کے مقدمات میں تبدیل کردیا تھا جس کی وجہ سے ان کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ بعض جج صاحبان بھی نہیں چاہتے تھے کہ وہ خصوصی عدالت کی سربراہی کریں اور دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت کریں کیونکہ وہ دہشت گرد تنظیموں کی طرف سے خطرہ محسوس کرتے تھے۔ بعض جج صاحبان کو دھمکیاں دی گئیں۔ ایک انسانی حقوق کے علمبردار وکیل کو ملتان جیل کے عدالت کے اندر قتل کردیا گیا اور آج دن تک حکومت خاموش ہے۔ دہشت گرد قاتل کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔