پورے ملک میں سیکورٹی الرٹ ہے۔ وفاقی حکومت کی دلچسپی پشاور، اسلام آباد، ایبٹ آباد اور لاہور تک محدود ہے جہاں سے افغان مہاجرین کو نکالنے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں۔ کوئٹہ کے ساتھ وفاق اور وفاقی ادارے امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔ کوئی بھی کوئٹہ سے افغان مہاجرین اور افغانستان سے آئے ہوئے غیر قانونی تارکین وطن کو نکالنے کی بات تک نہیں کرتا یہاں تک کہ صوبائی حکومت بھی خاموش ہے شاید وہ افغان مہاجرین کو بلوچستان کی شہریت کا درجہ دینے کا سوچ رہی ہے۔ حال ہی میں چیف سیکریٹری کی سربراہی میں کوئٹہ میں ایک اعلیٰ افسران کا اجلاس ہوا جس میں کوئٹہ کو زیادہ محفوظ بنانے کے پلان پر غور و خوض کیا گیا جو ایک خوش آئند بات ہے۔ بلوچستان میں دہشت گردوں کا پسندیدہ ٹارگٹ کوئٹہ ہے۔ طالبان نے ہمیشہ کوئٹہ کو نشانہ بنایا۔ اکثر طالبان دہشت گرد کوئٹہ اور اس کے گرد و نواح میں پناہ لے ہوئے ہیں یا ان کی ’’خاموش‘‘ پناہ گاہیں موجود ہیں جہاں سے وہ موقع ملتے ہی کارروائی کرتے ہیں۔ یہ مذہبی دہشت گرد ہیں جو پاکستان کو اسلامی ریاست نہیں مانتے اور انہوں نے پاکستان کی ریاست اور اس کے عوام کے خلاف اعلان جنگ کررکھا ہے۔ وہ اپنے مطلب کا اسلام لوگوں پر مسلط کرنا چاہتے ہیں جب بھی یہ مذہبی دہشت گرد کارروائی کریں گے تو وہ کوئٹہ میں ہی کریں گے۔ صوبے کے دوسرے شہروں میں ان کے چھپنے کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ ان کی پناہ گاہیں بلوچ علاقوں میں نہیں ہیں، بلوچ ان کو پسند نہیں کرتے بلکہ نفرت کرتے ہیں۔ حالانکہ بعض مفاد پرست سرکاری اہلکار یہ تاثر دینے کی ناکام کوشش کرتے ہیں کہ بلوچ اور طالبان دہشت گردوں کے درمیان کوئی اتحاد ہوا ہے۔ دوسرا بڑا گروپ فرقہ پرست دہشت گردوں کا ہے جنہوں نے ہزاروں کی تعداد میں معصوم مسلمانوں کو ہلاک کیا ہے۔ اکرم لاہوری ان کا ایک رہنما ہے جس کی پھانسی آخری وقت میں روک دی گئی۔ اکرم لاہوری کو ریاست کے بعض اہلکاروں کی حمایت حاصل تھی۔ اس لئے وہ لاہور جیل میں رہتے ہوئے بھی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے تھے۔ یہ سب کچھ حکومت کو معلوم تھا اور تب بھی اکرم لاہوری کو کارروائی سے باز نہیں رکھا گیا۔ ان کے خلاف ایرانی سفارت کار، ایرانی کیڈٹس کے علاوہ درجنوں افراد کوقتل کرنے کا الزام ہے۔ فرقہ پرست عناصر ابھی بھی حکومت کے حفاظتی تحویل میں رکھے گئے ہیں جہاں پر ان مجرموں کو تمام تر سہولیات فراہم کی جارہی ہیں۔ ان میں اکرم لاہوری اور ملک اسحاق شامل ہیں۔ کوئٹہ شہر میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کے بعد تاحال کسی بھی فرقہ پرست دہشت گرد کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ یہ حکومت کا فرض ہے کہ وہ فرقہ پرست تنظیموں کے خلاف کارروائی کرے تاکہ فرقہ پرستی کی بنیاد پر مزید دہشت گردی کی کارروائیاں نہ ہوں۔ اس کے علاوہ حکومت کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ تمام افغان مہاجرین اور غیر قانونی تارکین وطن کو کوئٹہ اور دوسرے شہروں سے نکال کر ان کو مہاجر کیمپوں میں رکھے تاوقتیکہ ان کو دوبارہ ان کے وطن واپس بھیجا جاسکے۔ صوبائی حکومت کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے پہلے افغان مہاجرین اور افغان غیر قانونی تارکین وطن کو نہ صرف گرفتار کرے بلکہ ان کو سرحدی علاقوں کے قریب کیمپوں میں رکھے۔ ان کی کوئٹہ میں موجودگی سے مطلب یہ لیا جائے گا کہ اتنی بڑی تعداد میں دہشت گردوں کے حامیوں کی پشت پنائی کی جارہی ہے۔ آج تک کسی بھی طالبان کو بلوچ علاقوں میں پناہ نہیں ملی، اگرملی تو صرف افغان مہاجرین کے پاس۔ اکثر دہشت گردی میں ملوث افغان مہاجرین پائے گئے۔ اس لئے ضروری ہے کہ کوئٹہ کو غیر قانونی تارکین وطن سے پاک کیا جائے۔ ان کو گرفتار کرکے وطن واپس بھیجا جائے۔ کوئی بھی افغان اگر کسی تجارت میں ملوث ہو تو اس کے مالی اسباب کو ضبط کیا جائے۔ افغان مہاجرین کو بلوچستان کے اندر روزگار کرنے کا حق نہیں ملنا چاہئے ،ان کو کیمپوں میں رکھیں اور حکومت اور اقوام متحدہ ان کے خوراک کا بندوبست کرے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ کوئی شخص افغان کو مکان کرایہ پر نہ دے۔ کوئی مسافر خانہ اور ہوٹل کسی افغان کو جگہ اس صورت میں دے کہ وہ پہلے پولیس سے اجازت حاصل کرے اور یہ تسلی کرے کہ وہ دہشت گردی میں ملوث نہیں ہے۔ آخری بات یہ ہے کہ گاڑیوں کی خرید و فروکت کو ایک نظام کے تحت چلایا جائے تاکہ دہشت گرد ان گاڑیوں کو استعمال نہ کرسکیں۔
بلوچستان کی سرزمین کو افغان مہاجرین سے پاک کرنے کا اس سے اچھا موقع نہیں ملے گا اور ڈاکٹر مالک کی حکو مت کو یہ موقع ضائع نہیں کرنا چائیے۔ وفاق سے یہ امید رکھنا کہ وہ افغان مہاجرین کو بلوچستان سے نکال کر افغانستان بھیجے گا، خوش فہمی ہوگی۔
کوئٹہ کو محفوظ تر بنائیں
وقتِ اشاعت : January 10 – 2015