اسلام آباد: وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور اور قومی سلامتی سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ افغانستان سے پاکستان میں ہونے والی کارروائیوں میں ہندوستان ملوث ہے۔
تاہم، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان نے نئی افغان حکومت کے ساتھ بات چیت کرکے اس بات کو ممکن بنانے کی کوشش کی ہے کہ دونوں ملک اپنی سرزمین کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہونے دیں۔
پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نریندر مودی نے اقتدار میں آنے کے بعد یہ شرط رکھی ہے کہ اگر پاکستان ہندوستان کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے تو اسے چاہیے کہ وہ کشمیر کو بھول جائے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے انڈیا کی اس شرط کو قبول کرنے سے پوری طرح سے انکار کیا ہے۔
پاک-انڈیا سرحدی کشیدگی اور مذاکرات میں تعطل سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ مودی کا ایجڈا کافی اوپن ہے کہ مذاکرات صرف ہندوستان کی شرائط پر ہوسکتے ہیں، جو پاکستان کے لیے قبول کرنا ناممکن ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اب بھی چاہتا ہے کہ وہ ہر سطح پر ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرے، کیونکہ یہ پورے خطے کی خواہش ہے۔
انہوں نے کہا حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد ایک وژن بنایا تھا جس کے تحت قومی سیکیورٹی کی حفاظت ایک اولین ترجیحی ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے خطے میں پڑوسی ملکوں کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا بہت ضروری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ماضی میں جو بھی پالیسی مرتب کیں، ان کا ملکی سیکیورٹی پر کوئی اچھا اثر نہیں ہوا ہے۔
مشیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ خودمختاری اور سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے پاکستان کسی دوسرے ملک کے معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا، بلکہ ہماری یہ کوشش ہے کہ ہم پڑوسی ملکوں کے ساتھ ایک مثبت طریقے سے ساتھ چل سکیں۔
شدت پسندی کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ پاکستان کی موجودہ پالیسی بہت ہی واضح ہے کہ ہم کسی بھی اچھے یا برے طالبان میں کسی قسم کی تفریق نہیں کرتے اور سب کے ساتھ اب ایک ہی طرح کی کارروائی کی جائے گی۔
انہوں نے کہا 16 دسمبر کو پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے حملے کے بعد اب دہشت گردی کے مسئلے پر نا صرف سول، بلکہ فوجی قیادت بھی ایک میز پر موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ جو شدت پسند افغانستان کی سزمین پر موجود ہیں ان کے خلاف وہاں کی افواج کارروائی کرے گی۔
مشیرِ خارجہ نے یہ بھی کہا دونوں ملکوں کی پالیسوں میں اہم تبدیلی ہوئی ہے اور اب ہماری کوشش ہے کہ سرحد پر دہشت گردی کی نقلِ حمل کو ناصرف روکا جائے، بلکہ ان پر نظر بھی رکھی جائے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اشرف غنی کے آنے کے بعد افغانستان کے حالات کی تمام تر ذمہ داری وہاں کی حکومت پر عائد ہوئی ہے اور پاکستان میں امن اُس وقت آسکتا ہے جب افغانستان مستحکم ہوگا۔