بی جے پی نے انتخابات جیتنے اور حکومت بناتے ہی پاکستان پر دباؤ بڑھانا شروع کردیا۔ ایک طرف وزیراعظم مودی اور اس کے وزراء سیاسی موسم کو گرم رکھنے کے لیے تند و تیز بیانات دیتے رہتے ہیں اور دوسری جانب مسلح افواج کو یہ حکم دے رکھا ہے کہ وہ پاکستان اور اس کے نہتے شہریوں کے خلاف بلااشتعال کارروائیاں جاری رکھیں تاکہ علاقے میں کشیدگی کی فضا برقرار رہے یا اس میں کسی قسم کی کمی نہ آئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ درجنوں نہتے شہری اس بمباری اور فائرنگ سے ہلاک ہوگئے۔ دو پاکستانی اہلکاروں کو فلیگ میٹنگ کے بہانے سرحد پر بلایا گیا اور بعد میں ان پر فائرنگ کرکے ان کو شہید کردیا گیا۔ اس پر حکومت پاکستان نے یہ درست فیصلہ کرلیا کہ آئندہ سپاہیوں کے درمیان فلیگ میٹنگ نہیں ہوا کرے گی بلکہ یہ اجلاس صرف ڈی جی ملٹری آپریشنز کے درمیان ہوا کرے گی۔ بھارت کی اندرونی صورت حال میں دہلی کی حکومت کو پاکستان کے خلاف کشیدگی پھیلانے کا کوئی فائدہ حاصل ہوتا نظر نہیں آتا۔ پھر بھارت کی حکومت پاکستان پر مسلسل دباؤ کیوں بڑھارہی ہے۔ یہ تو نہیں ہوسکتا کہ پاکستان اپنا موقف کشمیر یا دوسرے دو طرفہ معاملات پر تبدیل کردے اور بھارت کے دباؤ میں آکر سر تسلیم خم کرے۔ آئندہ چند دنوں میں جان کیری پاکستان کا دورہ کرنے والے ہیں اور صدر اوبامہ بھارت کا۔ خیال ہے کہ جنوری کے آخری ہفتہ میں صدر اوبامہ بھارتی مسلح افواج کی پریڈ کی سلامی قومی دن کے موقع پر لیں گے۔ شاید اس سے قبل بھارت یہ ثابت کرنے کی کوشش کرے گا کہ صدر اوبامہ پر یہ باور کرایا جائے کہ خطے میں فوجی کشیدگی کا ذمہ دار پاکستان ہے جس کی وہ سزا پاکستان کو دینا چاہتا ہے۔ اگر بھارت کی یہ سوچ ہے کہ وہ امریکہ کی بھرپور حمایت حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کرسکتا ہے اور پاکستان کو مجبور کرسکتا ہے کہ وہ بھارت کے تابع ریاست بن جائے تو یہ ممکن نہیں ہے۔ پاکستان ایک بہت بڑا ملک ہے اور وہ بھارت سے تین جنگیں لڑچکا ہے۔ بھارت یہ بخوبی سمجھتا ہے کہ پاکستان کے خلاف جنگ کرنے کے مضمرات کتنے بھیانک اور خطرناک ہیں۔ پاکستان ایک جوہری ملک ہے اس کے پاس اپنی دفاع کے لیے جوہری اسلحہ موجود ہے۔ اگر پاکستان کی سالمیت کو کوئی خطرہ لاحق ہوا تو بہ حالت مجبوری پاکستان ایٹمی اسلحہ استعمال کرسکتا ہے جس سے پورے خطے میں تباہی آئے گی اور اس کاذمہ دار صرف بھارت اور اس کی فرقہ پرست حکومت ہوگی۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ بھارت مذاکرات کے عمل کو دوبارہ شروع کرے۔ بلکہ بھارت کو پہل کرنا چاہئے کیونکہ بھارت نے ہی پاکستان سے مذاکرات نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بھارت اس لئے اپنا فیصلہ تبدیل کردے کیونکہ پاکستان کے سفارت کار سے کشمیری رہنماؤں کی ملاقات کوئی جرم نہیں ہے۔ اس لئے بھارت نے غلطی کی ہے اور غلطی کا ازالہ بھارت ہی کرے۔ رہی بات امریکہ کی، تو امریکہ سے یہ توقع رکھی جاسکتی ہے کہ وہ دونوں ممالک کے درمیان مفاہمت کرانے میں اپنا کردار ادا کرے اور بھارت کو مجبور کرے کہ وہ امن کی خاطر پاکستان سے مذاکرات دوبارہ شروع کرے تاکہ دو طرفہ معاملات کا کوئی حل تلاش کیا جائے۔ جان کیری سے اسلام آباد میں یہی بات ہوگی کہ امریکہ بھارت پر دباؤ ڈالے کہ وہ خطے کے امن کو برباد کرنے کی کوشش ترک کردے۔
بھارت کی جارحانہ پالیسی
وقتِ اشاعت : January 13 – 2015