جمعہ اور ہفتے کی درمیانی رات کو راولپنڈی کے ایک امام بارگاہ کے باہر خودکش حملہ کیا گیا جس میں 18افراد ہلاک اور 18 زخمی ہوئے۔ دہشت گرد خودکش حملہ آور تھا۔ اس نے پہلے امام بارگاہ میں گھسنے کی کوشش کی جبکہ سیکورٹی پر مامور لوگوں نے اس کو ناکام بنادیا جس پر اس نے خود کو دھماکے سے اڑادیا۔ یہ امام بارگاہ پنڈی شہر کے گنجان آباد علاقے میں واقع ہے جہاں پر تنگ گلیوں کی وجہ سے امدادی کارروائیاں متاثر ہوئیں۔ تاہم خودکش حملہ آور کی شناخت نہیں ہوسکی اور نہ ہی کسی تنظیم نے اس خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس میں بھی فرقہ پرست دہشت گرد تنظیم سابقہ سپاہ صحابہ یا حالیہ لشکر جھنگوی ملوث ہوگی۔ خودکش بمباروں کی پوری کیمپ انہی کے پاس ہے۔ تفتان جیسے دور دراز علاقے میں یہی گروہ خودکش حملے کرسکتا ہے اور درجنوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارسکتا ہے۔ افسوس کا مقام ہے کہ اس کے دو نامور رہنما ء ملک اسحاق اور اکرم لاہوری ابھی تک سلامت ہیں۔ ملک اسحاق کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلی جارہی ہے اور اس طرح سے قانون اور ریاست کی عمل داری کا مذاق اڑایا جارہا ہے جبکہ لوگوں کو یہ یقین کامل ہے کہ اکرم لاہوری کو کبھی بھی پھانسی نہیں دی جائے گی کیونکہ وہ ریاست کے لیے ایک اثاثہ کا درجہ رکھتے ہیں اور حسب توفیق ’’شیعہ دشمنوں‘‘ کو حکم نامے کے تحت قتل کرتے رہتے ہیں۔ گزشتہ دو دہائیوں سے فرقہ وارانہ دہشت گردی اس ملک میں جاری ہے اور حکومت ہے کہ ان فرقہ پرست دہشت گردوں کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ بلوچستان میں ایسے کئی مقدمات ہیں جہاں پر ایماندار پولیس افسران کلیدی دہشت گردوں اور قاتلوں کے قریب پہنچ گئے تھے کہ ان کو راستے سے ہٹانے کے لیے قتل کردیا گیا۔ ایک اعلیٰ ترین پولیس افسر کے گھر واقع پولیس لائن پر خودکش اور خوفناک حملہ کیا گیا تھا۔ ٹارگٹ وہ خود اور ان کے اہل خانہ تھے۔ حملے کی نوعیت اس بات کا اظہار کررہی تھی کہ اس پولیس افسر کے خلاف کتنی زبردست نفرت موجودہے کہ خودکش حملہ آور نے بارود سے بھری گاڑی اس کے گھر سے ٹکرادی۔ اس پر مزید کہ اسی نفرت کی وجہ سے پولیس افسر کو متبادل گھر نہیں دیا گیا۔ ان باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ فرقہ پرست دہشت گردوں کی پشت پناہی کی جارہی ہے۔ کوئٹہ شہر میں دہشت گردی کی وجہ سے ہزاروں اموات ہوچکی ہیں ان میں بعض صحافی اور عام لوگ بھی شہید ہوئے۔ ہمیں یہ نہیں معلوم کہ کس وجہ سے اتنے وسیع پیمانے پر فرقہ پرست دہشت گردی کیوں کی جارہی ہے۔ اس میں حکومتی اہلکاروں کی کیا دلچسپی ہے کیا پاکستان کی حکومت تمام شیعہ فقہ سے تعلق رکھنے والوں کو اس ملک کا دشمن سمجھتی ہے۔ یقیناً ایسا نہیں ہوسکتا۔ ریاست کے اندر کوئی ایک آدھ گروہ اس کی سرپرستی کررہا ہوگا۔ پوری ریاست پاکستان اس میں کسی بھی حوالے سے ملوث نہیں ہوسکتی۔ اس لئے ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ فرقہ پرست دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی کی جائے اور ان کے رہنماؤں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے کیونکہ ان کے ذمے ہزاروں افراد کا ناحق قتل ہے۔ فرقہ پرستی سے پاک معاشرے کا قیام بحران زدہ پاکستان کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ تمام قوم متحد ہوکر پاکستان کو موجودہ بحران سے نکال سکتی ہے۔ دہشت گرد پاکستان میں موجودہ بحران میں زیادہ شدت لاسکتے ہیں، اس کے حل میں کوئی مدد نہیں کرسکتے۔
فرقہ وارانہ دہشت گردی
وقتِ اشاعت : January 13 – 2015