کوئٹہ(اسٹاف رپورٹر)بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل ) کے سربراہ اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان سردار اختر جان مینگل کا کہنا ہے کہ قوم پرستوں کے دور حکو مت میں بھی بلوچستان کے حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ، بی این پی جلد حکو مت کی کارکردگی اور صوبے میں جاری مظالم کے بارے میں وہائٹ پیپر جاری کرے گی۔فوجی عدالتوں کی حمایت کرکے جمہوریت کی بات کرنے والوں نے جمہوریت کو معذور کردیا ہے۔ یہ بات انہوں نے سات ماہ بعد کوئٹہ پہنچے کے بعد اپنی رہائش گا ہ پر پریس کانفرنس کے دوران کہی۔ اس موقع پر بی این پی کے رہنماء4 ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی بھی موجود تھے۔ سردار اختر مینگل نے کہا کہ بلو چستان میں اب بھی حالات پرویز مشرف دور جیسے ہیں قوم پرستوں اور جمہوریت کے دعوے داروں کے دور حکومت میں بھی لو گوں کو لاپتہ کر نے ، مسخ شدہ لاشیں ملنے اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ وسائل کو لوٹا جارہا ہے قوم پرست حکمرانوں نے ریکوڈک کو پوراہڑپ کر لیا ہے۔ یہاں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے تعلیم ، صحت کے شعبے زوال پزیر اور امن وامان تباہ ہے ان سارے معا ملا ت پر ہم جلد وھا ئٹ پیپر جاری کر کے قوم کو آگاہ کریں گے۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کھل کر فوجی عدالتوں کی مخالفت کی ،جمہوریت کے دعوے داروں نے ہی اپنی لولی لنگڑی جمہوریت کے ہاتھ پیر کاٹ کر جی ایچ کیو کے دروازے پر رکھ دیئے ہیں۔سردار اختر مینگل کا کہنا تھا کہ ناراض بلوچوں سے مذاکرات کے بارے میں حکومت ہی جواب دے سکتی ہے ہمارا موقف ہے کہ نہ میری واپسی سے حالا ت ٹھیک ہو ئے اور نہ ہی کسی اور کے وطن واپس آنے سے ٹھیک ہوں گے بلوچستان کے بارے میں مرکز میں پائے جانے والے ماینڈ سیٹ کو تبدیل کر نا ہو گا۔سردار اختر جان مینگل کا کہنا تھا کہ بڑی مدت کے بعد کوئٹہ آنے کا موقع ملا ، بلوچستان کے حالات اور جس کوفت سے اہل بلوچستان گزر رہے ہیں اس سے بلوچستان کے عوم اور ذرائع ابلاغ کے نمائندے اچھی طرح باخبر ہیں مگر یہ اور بات ہے کہ میڈیا کی آواز بھی کیمروں اور ٹیپ ریکارڈر تک محدود رہتی ہے تمام پاکستانیوں تک پہنچائی نہیں جاتی یا اْس پر پابندی لگا دی جاتی ہے ، مقامی میڈیا اور ان کے نمائندوں سے ہمیں گلہ نہیں بلکہ اْوپر والوں سے ہے وہ نہ صرف میڈیا کے حوالے سے بلکہ بلوچستان کے ساتھ ہونے والے جو ظلم و ذیادتیاں ہیں اْس میں بلوچستان کو سیاسی اور معاشی طور نظر انداز رکھتے ہیں۔ بلوچستان کے لوگوں کا جو سیاسی اور معاشی قتل عام کیا جا رہا ہے اْس سے یہ اخذ ہوتا ہے کہ بلوچستان کے حالات کی جنرل مشرف کے دور میں جو بنیاد رکھی گئی تھی اْس میں اور آج کے حالات میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آرہی۔آج بھی بلوچستان میں آپریشن جاری ہے جس کی پرویز مشرف نے ابتداء4 کی تھی ،لاپتہ افراد، مسخ شدہ لاشیں ، ٹارگٹ کلنگ اب بھی جاری ہے۔ کاش کہ جمہوری حکومت میں ان واقعات کے تسلسل میں کمی آتی مگر بد قسمتی سے اس میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ کئی گھر اجاڑ دئیے گئے ہیں ، بوڑھے بزرگوں کے بڑھاپے کے سہارے چھین لئے گئے ، کئی بہنوں کے سروں پر دوپٹے رکھنے والے ہاتھ کاٹ دئیے گئے ہیں۔ اب بھی ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچستان مشرف کے مارشل لاء4 دور سے گزر رہا ہے۔جمہوریت کی کرنیں شاید ملک کے دوسرے حصوں میں پہنچ گئی ہوں اور کئی لوگ سے لطف اندوز بھی ہو رہے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ جمہوریت کے حق میں ون یونٹ کے خلاف جدوجہد کی بنیاد ڈالنے والے بلوچستان کے لوگ آج بھی جمہوریت کے ثمرات سے محروم ہیں۔ہر آمر کے خلاف بلوچستان کے لوگوں نے صف اول میں جدوجہد کی ہے ، ہر آمر کی گولیاں بھی سب سے پہلے بلوچستان کے لوگوں نے ہی سہی ہیں لیکن افسوس کی بات ہے کہ جمہوریت میں بھی آج بلوچستان خون میں لت پت ہے، روزانہ لاشیں گر رہی ہیں لاپتہ افراد کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ جو نیا سیٹ اپ بنایا گیا ہے اور الیکشن میں من پسند لوگوں کو جتوایا اور پھر حکومت کی بھاگ دوڑ سونپی گئی تاکہ وہ شتر مرغ کی طرح بلوچستان میں ہونے والے مظالم پر اپنی آنکھیں بند رکھیں اور اپنی تنخواہ میں سرکاری جی حضوری کریں۔ہم نے اس سے بھی سخت ترین حالات میں گزارا کیا ہے ہم سمجھتے ہیں کہ بندوق کے زور پر بلوچستان کے لوگوں کو ڈرایا نہیں جا سکتا اور نہ ہی بندوق کے زور پر بلوچستان کے لوگوں کو پاکستانی ہونے کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہے۔ سردار اختر مینگل نے کہا کہ بلوچستان نیشنل پارٹی نے جنرل مشرف کے دور سے لے کر آج دن تک اسی جدوجہد میں اپنے کئی ساتھی قربان کئے ہیں ،ہم اْن کو بھولے ہیں اور نہ ہی ہم بلوچستان میں ہر اْس شخص نے خواہ وہ کسی بھی قوم زبان یا قبیلے سے تعلق رکھتا ہو بلوچستان کے حقوق کیلئے جدوجہد کی ہو ہم نے ان کیلئے آواز اٹھائی ہے اور اٹھاتے رہیں گے۔ صحافیوں کے ساتھ سوال و جواب میں سردار اختر مینگل کا کہنا تھا کہ یہاں پر حکومت نہیں ہے وزراء4 کے ٹولہ کو حکومت نہیں کہتے ،بلوچستان میں تعلیم کا کیا حال ہے سب کے سامنے ہیں، صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ سول ہسپتال جو کوئٹہ شہر کا سب سے بڑا سرکاری ہسپتال ہے اْس کا کیا حال ہے کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ ترقیاتی کام صرف چند علاقوں اور لوگوں تک محدود ہیں۔ امن و امان کا یہ حال ہے کہ کئی وزراء4 ایم پی ایز اورخود وزیر اعلیٰ بھی اپنے حلقے میں نہیں جا سکتے۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز کو مارا جا رہا ہے ، صحافیوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔ لاشیں ملنے کا سلسلہ جو صرف بلوچ علاقوں میں جاری تھا اب جب پشتون قوم پرست حکومت میں آئے ہیں ان کے علاقوں میں لاشیں ملنے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔تبدیلی لوگوں اور عوام سے لائی جاتی ہے ہم نہ کبھی سرکاری تبدیلی کے خواہاں رہے ہیں نہ ہی سرکاری تبدیلی کی امید رکھتے ہیں۔ہم عوامی سطح پر تبدیلی کیلئے روز اول سے جدوجہد کر رہے ہیں جس کیلئے ہم نے کافی نقصان بھی اْٹھایا ہے۔ایک اور سوال پر اختر مینگل نے کہا کہ ناراض بلوچوں سے مذاکرات کا وہ جواب دے سکتے ہیں جو حکومت میں ہیں ،ہاں اگر نا راض بلوچوں کو منانے کیلئے لاشوں کے تحفے دئیے جارہے ہیں تو میرے خیال میں کوئی با غیرت بلوچ اْن دعوت ناموں کو قبول نہیں کرے گا۔انہوں نے کہ اکہ اسمبلی میں دو آدمیوں کے ساتھ میں وزیر اعلیٰ نہیں بن سکتا اور یہ قیاس آرائیاں بھی غلط ہیں کہ مجھے وزیر اعظم کی جانب سے وزیر اعلیٰ کے عہدے کی پیشکش ہوئی تھی۔ میں اتنا پاگل نہیں یہ مسائل سے بھرا یہ ٹوکرا اپنے سر پراْٹھاؤں۔جن کے کنٹرول میں شروع سے بلوچستان کے حالات رہے ہیں ان کا مائنڈ سیٹ ابھی تک تبدیل نہیں ہوا ہے وہ سمجھتے ہیں کی لاشیں پھینکنے اور لوگوں کو اْٹھانے سے حالات بہتر ہوں گے تو یہ ان کی غلط سوچ ہے۔انہوں نے کہا کہ صرف معافیاں مانگنے سے تو بلوچستان میں امن نہیں آ سکتا آپ کے سامنے پہلے کتنے حکمرانوں نے معافیاں مانگی ہیں مگر عملی طور پر بلوچستان کے حالات بہتر کرنے کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے۔اختر مینگل نے کہ اکہ جو لوگ اپنے آپ کو جمہوریت کے بانی کہتے تھے اْ ن کے ہاتھوں جمہوریت کے ہاتھ کاٹ کر جمہوریت کی زبان کاٹ کر اْسے محتاج بنا کر جی ایچ کیو کے دروازے پر بھیک مانگنے کیلئے چھوڑ دیا گیا ہے۔ ہم نے روز اول سے اس ترمیم کی مذمت کی تھی اور آج بھی کرتے ہیں۔ ایک ممبر کے ہوتے ہوئے بھی بڑی سیاسی پارٹیاں جو ہمیں غیر جمہوری کہتی تھیں انہوں نے اس ترمیم کو ووٹ دے کر اْس جمہوریت کی ایسی کی تیسی کر دی ہے ہم اْس گناہ میں شامل نہیں ہوئے ہیں جس میں بڑے بڑے عامل و فاضل شریک ہوئے ہیں۔ایک اور سوال پر بی این پی کے سربراہ نے کہا کہ ہم یہ بات سن رہے کہ بلوچستان کے حالات خراب کرنے میں بیرون ہاتھ ملوث ہیں میں کہتا ہوں کے کونسا ملک ہے جو یہاں حالات خراب کر رہا ہے وہ سامنے لایا جائے۔وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت کا کیا پتہ نہیں ہے کہ کون یہاں مداخلت کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے کچھ ارکان پہلے ان الزامات کو رد کرتے تھے کہ بیرونی ہاتھ پاکستان میں مداخلت کر رہے ہیں مگر آج وہ خود کہہ رہے ہیں تو عوام کے سامنے ان ملکوں کے نام لیں جو یہاں کا امان و امان تباہ کرنے میں ملوث ہیں۔
بلو چستان میں اب بھی حالات پرویز مشرف دور جیسے ہیں ،سردار اختر مینگل
وقتِ اشاعت : January 14 – 2015