|

وقتِ اشاعت :   January 18 – 2015

سیاسی اور سفارتی سطح پر پاکستان پر بھارت کا خوف مکمل طور پر طاری ہے کہ بھارت پاکستان اور افغانستان کے درمیان غلط فہمی پیدا کرسکتا ہے اگر حکومت پاکستان نے افغانستان کے مہاجرین اور غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کوئی کارروائی کی۔ اس خوف نے حکومت پاکستان کے ان تمام منصوبوں کو شک میں ڈال دیاہے جس کے لیے حکومت دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑرہی ہے خصوصاً اس جنگ کا وہ حصہ جس کا تعلق افغان مہاجرین اور غیر قانونی تارکین وطن سے ہے۔ یہ بات ظاہر ہے کہ تمام دہشت گرد افغان مہاجرین اور غیر قانونین تارکین وطن کے پناہ میں ہیں۔ وہی ان کو تمام سہولیات فراہم کرتے ہیں۔ خصوصاً گھر، پناہ گاہیں اور چھپنے کی جگہ۔ بعض اوقات ان کے لیے بار برداری کا کام بھی یہی لوگ کرتے ہیں شاذ و نادر ہی مقامی لوگ دہشت گردوں کی مدد کرتے ہیں۔ اکثر مدارس اور اس کے ساتھ ہاسٹل بھی دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے طور پر استعمال ہورہی ہیں۔ مگر زیادہ قابل اعتبار پناہ گاہیں صرف اور صرف افغان مہاجرین اور غیر قانونی تارکین وطن کی ہے۔ اگر حکومت پاکستان افغانوں کو واپس اپنے ملک کامیابی سے روانہ کرتی ہے تو یہ نصف جنگ جیتنے کے برابر ہے۔ بلکہ ملک کے اندر 50فیصدجرائم میں یکایک کمی ہوگی۔ معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کے کارندے اور اہلکار خوفزدہ نظر آتے ہیں کہ اگر مہاجرین کے خلاف سخت کارروائی کی ابتداء کی گئی تو بھارت اس کو پاکستان کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرسکتا ہے اور پاکستان اور افغانستان کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرسکتا ہے اور ممکن ہے اسی بہانے افغانستان بھارت کے زیر اثر چلا جائے۔ عوام الناس کو معلوم ہے کہ افغان بہت ہی زیادہ ذہین قوم ہے سینکڑوں برس تک افغانستان نے دو سپر طاقتوں ’’برطانیہ اور روس‘‘ کے درمیان اپنی آزادی کو سفارت کاری سے برقرار رکھا۔ گزشتہ 30سال کے واقعات نے ثابت کیا کہ افغان اپنے ملک کے دفاع کے اہل ہیں۔ ان کو معلوم ہے کہ افغانوں کے مفادات پاکستان کے ساتھ ہیں، بھارت کے ساتھ نہیں۔ لہٰذا بھارت ان کو بے وقوف نہیں بناسکتا کہ وہ صرف افغان مہاجرین اور تارکین وطن کی وجہ سے اپنے تعلقات اور مفادات کو نقصان پہنچائے۔ البتہ بین الاقوامی برادری میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو سالوں سے یہ مہم چلارہا ہے کہ افغان مہاجرین 40سال سے پاکستان میں ہیں اب ان کو پاکستان ہی میں رہنے دیا جائے۔ یہ گروپ میڈیا میں مہم چلا رہا ہے اور ساتھ ہی سرکاری افسران اور وزراء کو خوفزدہ بھی کررہا ہے کہ بھارت اس کا فائدہ لے گا اگر پاکستان نے افغان مہاجرین اور غیر قانونی تارکین پر کسی قسم کی سختی کی یا ان کو طاقت کا استعمال کرکے واپس افغانستان بھیجنے کی کوشش کی۔ یہ سب پروپیگنڈا ہے اس کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہے افغانستان کے طویل مدت کے مفادات پاکستان کے ساتھ ہیں،بھارت کے ساتھ نہیں ۔ پاکستان افغانستان کا پڑوسی ہے بھارت نہیں ہے۔ دریا، پہاڑ، ریگستان وہ پاکستان کے ساتھ شیئر کررہا ہے۔ وفاق کو یہ بات تسلیم کرنی پڑے گی کہ صوبوں کی طرف سے ان پر شدید دباؤ ہے کہ جلد سے جلد افغانوں کو ان کے ملک فوری طور پر واپس بھیجا جائے۔ ایبٹ آباد سے کئی لاکھ افغانوں کو بے دخل کرنے کی درخواست کی گئی۔ کے پی کے کی حکومت نے مطالبہ کیا ہے کہ پانچ لاکھ سے زائد افغانوں کو پشاور سے نکالا جائے۔ وفاقی حکمران اس بات پر خوفزدہ ہیں کہ اسلام آباد میں لاکھوں کی تعدادمیں افغان موجود ہیں جو ان کی زندگی کے لیے خطرہ ہیں۔ سب سے زیادہ لاوارث صوبہ بلوچستان ہے جہاں پر حکمران خوف سے افغان مہاجرین اور غیر قانونی تارکین وطن کا نام نہیں لیتے اور عوام ان کی موجودگی سے تنگ ہیں اور مطالبہ کررہے ہیں کہ جرائم پیشہ، دہشت گردوں کو واپس اپنے ملک روانہ کیا جائے۔صوبائی حکومت فوری طورپر غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کارروائی شروع کرے ان کے املاک کو ضبط کرے۔ ان کو جیل میں رکھے تاوقتیکہ ان کو واپس اپنے وطن بھیجا جاسکے ۔مہاجرین کے لیے اس سال کے آخر تک انتظار کیا جاسکتا ہے مگر غیر قانونی تارکین وطن کے لیے نہیں۔ ان کے خلاف فوری کارروائی کی جائے اور دنیا کویہ پیغام دیا جائے کہ پاکستان میں معاشی مہاجرین کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے خواہ ان کا تعلق بھارت سے ہو،بنگلہ دیش یا برما سے سب کو واپس اپنے ملک بھیجا جائے۔ ان کو روزگار حاصل کرنے کا حق نہ دیا جائے وہ جلد سے جلد اپنے ملک واپس جائیں۔