اگر کسی بھی معاشرے کا کہانی کارزندہ ہوتو اس کی تاریخ نہیں مرتی‘اس کا صحافی بیدار مغز ہوتو تقدیر زیادہ دیر روٹھ نہیں سکتی ۔ دانشوروں کا بے غرض تعلق باقی ہوتو قوم کے قریب ذلت وپسپائی کو آتے ہوئے موت آتی ہے ۔ بلوچستان کی تاریخ اور تقدیر پر اس لئے رشک آتا ہے کہ جمہوریت کے پودے کو شجر بارآور بنانے میں اس کا بہت بڑا حصہ ہے۔ آمروں نے ہمیشہ ملک کے باقی اقوام پر دھاک بٹھانے کے لیے پہلا ٹارگٹ اس صوبہ کو بنایا۔ لیکن آج بلوچستان کے سچ کو ملک بھی میں پذیرائی مل چکی ہے ۔آج ہر پڑھا لکھا شخص صوبے کے ساتھ ہونے والے مظالم کی داستان سناتا ہے اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق فیصلے کرنے کیلئے سراپا احتجاج ہے
کیونکہ’’ اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘‘ کی مانند ہر شخص ماضی کے حکمرانوں کی غلطیاں اور فرعونیت کے قصے دہرارہا ہے بہر حال سیاست کو سنجیدہ سہارے، محبت کو معصوم بنجارے، حقوق کو جہد مسلسل کے نقارے اور گرمئی جذبات کوپر خلوص آبشارے چاہئیں۔ یہ سب کچھ اور اس میں پوشیدہ اوصاف آپ کو بلوچستان کے اہل علم و دانش، سیاسی اکابرین اور اساتذہ علم وفن کی بصیرت اور عوامی محبت میں نظر آئے گی ۔ یہ خوبیاں کسی کے اپنے کام سے والہانہ تعلق اور مخلصانہ جدوجہد، عوامی رابطہ اور وابستگی سے ہی ملیں گی ۔ صدیق بلوچ زمانہ طالبعلمی سے ہی سنجیدہ سیاست کے دام الفت کے گرہ گیر ہوئے اور فارغ التحصیل ہونے کے بعد شعبہ صحافت سے منسلک ہوئے اور تاحال منسلک ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی سیاسی اکابرین سے ان کا ناطہ روز اول سے جڑا ہوا ملے گا ۔سیاست کے وادی پر خار میں انہوں نے برسوں جیل کی صعوبتیں برداشت کیں ۔ میر غوث بخش بزنجو کی گورنر شپ کے دوران بحیثیت پریس سیکرٹری ذمہ داریاں سنبھالیں اور اس قلیل مدت کی حکومت کے بعد آمروں نے طویل مارشل لاء کی داغ بیل ڈالی۔ جمہوریت کے چیمپئینز کو سبق سکھانے کیلئے مظالم کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا لیکن جس سیاست کے پریشر ککر کا سہار لیا گیا تھا وہ ایسا پھٹا کہ اب نہ تو صحافی طلباء ڈاکٹر‘انجینئر‘سپاہی‘ سیاستدان ‘ حکمران اس کی زد میں آتے ہیں ملکی معاشی واقتصادی ادارے بھی تباہی سے دو چار ہے۔ صدیق بلوچ نے 2002 میں بلوچستان کے سیاسی واقتصادی معاملات کا تنقیدی جائزہ لینے کی غرض سے ایک کتاب لکھی۔ جس کا مقصد حکمرانوں کو بلوچستان کی اہمیت وافادیت سے آگاہ کرنا تھا اور اس کے ساتھ ہونے والی زیادتی کو ملک کیلئے نقصان دہ قرار دیا۔ اس کے بعد ان کی 2004 میں دوسری کتاب بلوچستان اور اس کے معاشی وسیاسی معاملات منظر عام پر آئی۔ اب ان دونوں کتابوں کے درمیان دس سال کے عرصے میں کیسی تبدیلی آئی ہے۔ وہ کوئی پڑھا لکھا شخص ہی محسوس کرسکتا ہے۔ گزشتہ کتاب کے مقابلے میں یہ کافی شدت کے ساتھ لکھی گئی ہے اس لئے کہ قلم کار جس توقع کے ساتھ خرابیوں اور غلطیوں کی نشاندہی کرتا ہے اگر اسے سنجیدہ نہ لیا جائے یا سنجیدگی کی سکت نہ ہو تو قلم کار ایک تکلیف سے دوچار ہوتا ہے ۔بدقسمتی سے اس ملک میں قلم کار تو خود کو عوام کا جوابدہ سمجھتا آرہا ہے مگر حکمران خود کو اس سے مبرا خیال کرتے آئے ہیں اور آج جس تنزلی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے شاید اس کی بنیادی وجہ بھی یہی ہو۔کیا اس ملک میں بزنجو جیسی بین الاقوامی شخصیت عطاء اللہ مینگل جیسا راست گو‘سردار خیربخش مری جیسے حقوق کے علمبردار‘شہید نواب اکبر خان بگٹی جیسا محب وطن کی حیثیت و اہمیت سے کوئی انکار کر سکتا ہے۔ملک کے دیگر صوبوں میں بھی ان کے ہمسروں کی کمی نہیں تھی مگر سب کے ساتھ وہی سلوک روا رکھا گیا۔ جو بلوچستان کے اکابرین کے ساتھ برتاؤ جاری رکھا گیا۔ یہاں اس کی شدت اسلئے بھی زیادہ تھی کہ دوسروں پر محض وھاک نے کیلئے پہل یہاں کرنا تھی لیکن اسی دھاک بٹھانے کے عمل کے دوران ہم سے مشرقی پاکستان علیحدہ ہوا۔ البتہ صدیق بلوچ قلم کے ذریعے وہ سب کچھ لکھتے رہے جن سے قومی پستی اور بربادی کے سوالات جنم لیتے ہیں چونکہ ملکی اقتصادی و معاشی اور سیاسی معاملات کا براہ راست یا بالواسطہ تعلق بلوچستان سے بنتا ہے اسلئے بلوچستان کی اس خطے میں اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔
صدیق بلوچ ن28 سال انگریزی کے ایک قومی اخبار میں بحیثیت رپورٹر وتجزیہ کار کام کرتے رہے بعد میں اپنے اخبارات آزادی اور بلوچستان ایکسپریس کی کمان سنبھالی ملکی و بین الاقوامی سیاست پر بھی ان کی گہری نظر ہے
بلوچستان کے170 سال کی معاشی اقتصادی سماجی وسیاسی معاملات پر جو گہری نظر صدیق بلوچ کی ہے شاید ہی ایسا کوئی نابغہ روزگار آس پاس میں پایاجا تا ہو انگریزی اور اردو میں قلم کی ایسی روانی کہ کبھی کھبار قرطاس کو بھی ہاتھ جوڑ کر بس بھی کر صدیق بھائی کہنا پڑتا ہوگا مستقل مزاج ایسے کہ جس کام کا بیڑا اٹھا یا اسے انجام تک پہنچائے بغیر مجال ہے سکھ سانس لیا ان کی جرات وہمت کے سامنے ان سے چمٹی ہوئی بیماری بھی بے بس نظر آرہی ہے مضبوط اعصاب کے آدمی جب تک خود اپنے آپ میں بگاڑ پیدا نہ کریں ان میں بگاڑ پیدا کرنے والوں کو خود ہی پسپائی سے دو چار ہونا پڑے گا
بچوں کو صحافی بنانا ہے تو بنانا ہی ہے ۔ اپنے حقوق کا دوسروں کو احساس دلانا ہے تو دلاتا ہی رہے گا ۔ دفتر کا لنگر آباد رکھنا ہے تو آباد ہی رہے گا ملک بھر میں حامیوں کا جال بچھانے کیلئے تربیت کے مشن کو آخر دم تک لے کرجانا ہے اور با با بزنجو کے جمہوری مشن کو دوام بخشنے کیلئے آخری مشن تک جانا ہے ۔ وقت نے ثابت کردیا ہے کہ جمہوریت کیلئے سب سے بلند اور مستحکم آواز بلوچستان سے اٹھی۔ نا سمجھوں نے ہمیشہ جمہوریت کو نقصان پہنچایا۔جس کا خمیازہ آج وہ بھگت رہے ہیں۔ فیض احمد فیض۔ حبیب جالب اور سبط حسن کی نظریاتی وابستگی کو سب سے زیادہ قبولیت کہاں ملی؟ بلوچستان میں اس کی تاریخ اگر معلوم کرنی ہے اس کی سچائی کا کوئی پیمانہ رکھنا ہے تو پھر آج ملک میں مظالم کی تاریخ اٹھا کر پڑھیں اس لیے تو بزرگوں نے کہا تھا کہ جب آگ لگتی ہے تو گیلی اور سوکھی لکڑیاں اس کی لپیٹ میں ضرور آتی ہیں سو اس آگ کو بجھانے یا اس کا رخ تبدیل کرنے کیلئے صدیق بلوچ کو سننا‘ پڑھنا پڑے گا اور جہاں جہاں سچ اور حقائق کے سبیل نصب ہوں ان سے فیض حاصل کرنا ہوگا۔ تاریخی غلطیوں کو دہرانے کی بجائے تاریخ سے سبق سیکھنا پڑے گا ۔مظلوم کی دادرسی پہلی ترجیحی ہونی چاہئے اور رحم کی اپیل ہمیشہ قاتل کی ہوتی ہے مقتول کی نہیں ۔
صحافت کے سبیل صدیق بلوچ ۔۔۔۔ وحید زبیر
وقتِ اشاعت : January 21 – 2015