جنرل پرویز مشرف پاکستان پہنچنے کے بعد اس وقت پریشان ہو گئے تھے جب انہوں نے حالات کو توقعات کے بر عکس پایا۔ جب تک وہ بیرون ملک تھے ان کو یہ غلط فہمی تھی کہ وہ پاکستان کے مقبول ترین شخص ہیں اور پاکستان میں دوبارہ قدم رکھتے ہی لاکھوں افراد ان کا استقبال کریں گے ان پر پھول نچھاور کریں گے اور الیکشن سے پہلے ہی ان کو اقتدار دوبارہ سونپ دیا جائے گا ۔ مگر ملک پہنچنے کے بعد ان کو شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کا استقبال کرنے کے بجائے ان کو’’حفاظتی تحویل‘‘ میں لے لیا گیا۔ آج تک وہ ‘‘حفاظتی تحویل‘‘ میں ہے جس سے ان کی پریشانیوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوگیا ہے۔ ان کو عوام کی پذیرائی کے بجائے مقدمات کا سامنا کرنا پڑا ،یعنی ملک سے غداری اور آئین شکنی کے علاوہ بعض قتل کے بھی مقدمات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ بنیادی معاملہ ان کی پشیمانی ہے کہ انہوں نے اپنے دوستوں اور فوجی قیادت کے مشورے پر عمل نہیں کیا۔ جنہو ں نے ان کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ پاکستان نہ آئیں حالات ان کیلئے مناسب نہیں ہیں۔ ویسے بھی فوجی قیادت نے ان کو پروٹوکول کے ساتھ الوداع کیا تھا ۔ پہلے اس کی وردی اتار لی گئی جو فوج کے اندر کا معاملہ تھا۔ بعد میں بہ حیثیت صدر ان سے استعفیٰ لیا گیا تھا اور اس کے ساتھ ہی ان کو عزت اور احترام کے ساتھ ملک سے روانہ کیا گیا تھا اس یقین کے ساتھ وہ واپس ملک کا رخ نہیں کریں گیخصوصاً سیاسی اور دوسری وجوہات کی بناء پر کچھ عرصہ وہ باہر رہے ، تقاریر کرتے رہے۔ لاکھوں ڈالر کمائے۔ اس دوران انہوں نے اپنی ذاتی پارٹی بنائی اور اعلان کیا کہ ملک میں واپس آئیں گے اور ملک میں انتخابات میں حصہ لیں گے۔ فوجی جرنیل اور سابق ساتھیوں و فوجی قیادت اور بعض اخبار نویسوں نے ان کو یہ مشورہ دیا کہ حالات ان کے موافق نہیں ہیں لہذا وہ ملک نہ آئیں ان کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ وہ فوجی اور ملک کے سربراہ رہے ہیں ا۔ نہوں نے یہ مشورہ نہیں مانا اور توقع کی کہ فوج کا ادارہ ہر حال میں ان کی حمایت کرے گا بلکہ توقع اس حد تک تھی کہ ان کو دوبارہ تخت نشیں کردیا جائے گا۔ ان کیلئے زبردست سیکورٹی کے انتظامات تھے جن کی وجہ سے ان کی عوام کے سامنے بے عزتی نہیں ہونے دی گئی۔ ملک کے جمہوریت پسند عناصر کو ان کے نزدیک آنے نہیں دیا گیا۔ گزشتہ دنوں انہوں نے یہ موقف اپنایا کہ ان کی والدہ شدید علیل ہیں ان کو پاکستان سے باہر جانے دیا جائے چونکہ ان کے خلاف غداری اور آئین شکنی کا مقدمہ چل رہا ہے ان کی درخواست مسترد کر دی گئی۔ اب اس بار پھر وہ سعودی عرب جانا چاہتے ہیں کہ وہ سعودی فرمانروا کے انتقال پر ذاتی طور پر تعزیت کرنا چاہتے ہیں۔ حکومت پہلے ہی ان کو اس لسٹ میں شامل کیا ہے جس میں لوگوں کو ملک چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے ۔ اب حکومت نے یہ فیصلہ کرنا ہے کہ پرویز مشرف کو ملک چھوڑنے کی اجازت اس بناء پر دی جائے گی یا نہیں اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ ایک مرتبہ ملک چھوڑنے کے بعد پرویز مشرف ملک واپس آئیں گے اور ان تمام مقدمات کا سامنا کریں گے اور اس وقت تک کریں گے جب تک وہ با عزت طور پر بری نہ ہو جائیں۔
مشرف کے ملک سے فرار ہونے کی کوشش
وقتِ اشاعت : January 29 – 2015