|

وقتِ اشاعت :   January 29 – 2015

پاکستان افغانستان میں مغرب کا دیرینہ اتحادی رہا ہے بلکہ برطانوی نوآبادیاتی نظام کے تحت بھی اس خطے نے مغربی مفادات کا بھرپور تحفظ کیا۔ یہ سب تاریخ کی باتیں ہیں۔ آج امریکہ کا صدر بھارت میں بیٹھ کر یہ اعلان کررہا ہے کہ اس نے افغانستان میں اپنا اتحادی تبدیل کردیا ہے۔ اب پاکستان اس کا اتحادی نہیں رہے گا بلکہ بھارت پورے خطے میں، بشمول افغانستان، امریکہ کا اتحادی ہوگا۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے کوتاہ نظر حکمران ہی اس کے ذمہ دار ہیں۔ ان کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے امریکہ نے اپنا اتحادی تبدیل کردیا ہے۔ بنیادی وجہ یہی ہے دوسری وجہ چین ہے جس کو امریکہ اپنے قومی ریاست کے اندر مقید کرنا چاہتا ہے یعنی امریکہ چین کو ہرگز یہ اجازت نہیں دے گا کہ وہ گلف اور وسط ایشیاء میں اپنے مفادات کو آگے بڑھائے اور امریکی مفادات کو نقصان پہنچائے۔ پاکستان میں یہ اہلیت نہیں ہے اور نہ ہی موجودہ دور میں پاکستان کے حکمران چین کے مفادات کے خلاف اقدامات کریں گے۔ اس لئے آئندہ آنے والے دنوں میں یہ تمام باتیں کھل کر سامنے آئیں گی کہ امریکہ یہ پسند نہیں کرتا کہ چین بحر بلوچ میں موجود ہو اور گوادر جیسا پورٹ اس کے ہاتھ میں ہو۔ اس لئے امریکہ نے اس بات کو ترجیح دی کہ بھارت نہ صرف چاہ بہار کی بندرگاہ تعمیر کرے بلکہ اس کا بنیادی ڈھانچہ بھی بنائے اور شاہراہوں کے ساتھ وسط ایشیائی ممالک، خصوصاً افغانستان سے رابطہ قائم کرے تاکہ مغربی ممالک بھی اس گزرگاہ کو استعمال کرسکیں۔ چین کی بحر بلوچ میں موجودگی امریکہ کے لئے ایک پسندیدہ عمل نہیں ہے بلکہ اس کو وہ اشتعال انگیزی سمجھتا ہے اور اس کے خلاف ضرور کارروائی کرے گا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ کاشغر۔گوادر کی گزرگاہ گلگت اور بلتستان سے گزرتا ہے ضرورت سے زیادہ عقلمند پاکستانی حکمرانوں نے خود اس کو متنازعہ علاقہ بنایا ہے۔ وجہ یہ بھی کہ اگر کبھی استصواب رائے کا عمل اقوام متحدہ نے شروع کیا تو یہاں کے ووٹ بھی پاکستان کے حق میں استعمال ہوں گے۔ مقامی آبادی نے جدوجہد کے بعد گلگت اور بلتستان کو پاکستان کے ساتھ شامل کیا اور ہمارے حکمرانوں نے کوتاہ اندیشی کرتے ہوئے اپنے ہی ملک کے حصے کو متنازعہ بنادیا۔ تاریخ کے کسی موڑ پر بھارت امریکہ کی شہہ پر ان علاقوں میں اپنی فوجی قوت استعمال کرسکتا ہے اورقراقرم شاہراہ کو نہ صرف بند بلکہ اس پر قبضہ کرسکتا ہے۔ یہ کشمیر پر جنگ کی صورت میں ممکن ہے۔ اس طرح سے بھارت امریکی مفادات کی پاسداری کرے گا اور چین کو ہمالیہ کے پہاڑوں میں مقید کرے گا تاکہ وہ سندھ، پنجاب اور بحر بلوچ میں نہ پہنچ سکے۔ امریکہ کی اتحادی کی تبدیلی کے اس کے علاوہ اور کوئی معنی نہیں ہوسکتے کہ بحر بلوچ میں موجود امریکی بحری بیڑہ کو چین کی طرف سے خطرات لاحق نہ ہوں۔ اگر پاکستان اس بات کی اجازت دیتا کہ بھارت گوادر کی گزرگاہ کو تجارت کے لیے فروغ دیتا تو صورت حال میں تبدیلی ممکن تھی۔ اب ایران زیادہ پسندیدہ ملک کا درجہ اختیار کرتا نظر آرہا ہے جہاں پر بھارت امریکی مفادات کی نگرانی کرے گا۔ افغانستان میں امریکہ کے دو ہزار سے زاید سپاہی مارے گئے۔ ایک مرتبہ امریکی صدر اوبامہ نے 8لاشوں کو صبح سویرے ائیرپورٹ پر وصول کیا یہ سب کے سب صرف ایک واقعہ میں مارے گئے تھے۔ امریکی صدر کا غصہ ٹی وی اسکرین پر ناقابل دید تھا امریکہ اپنے تمام تر نقصانات کا ذمہ دار ہم کو ٹھہراتا رہا ہے۔ آئے دن افغان اور امریکی ترجمان پاکستان پر یہ الزامات لگاتے رہے ہیں کہ پاکستان حقانی نیٹ ورک اور دوسرے افغان جنگجوؤں کی مدد کررہا ہے جس کی وجہ سے امریکی سپاہی ہلاک ہورہے ہیں۔ سلالہ چیک پوسٹ پر امریکہ کی فضائی بمباری اسی غصے کا ایک سبب تھا کہ پاکستان امریکہ کے مفادات کے خلاف کام کررہا ہے۔ بعض حلقوں نے تو اعلانیہ کہا تھا کہ امریکی انخلاء کے بعد افغانستان میں پاکستان کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہوگا۔ یہ غیر سرکاری لوگ تھے جو حکومت کی ترجمانی کررہے تھے۔ طالبان کے دور میں یہ صاف نظر آگیا تھا کہ افغانستان پر پاکستان کا کتنا اثر و نفوذ ہے۔ طالبان کے حکومت کے خاتمے کے بعد دہشت گردوں کو پناہ دینا یا ان کے خلاف کارروائی نہ کرنے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ طالبان کے اساتذہ کو بلوچستان اور کے پی کے میں اقتدار دینا بھی ایک اشتعال انگیز عمل تھا اس کا تعلق جے یو آئی کے زیرسرپرستی اتحادی حکومت کو تشکیل دینا خود ایک اشارہ تھا کہ افغانستان سے ملحق سرحدی صوبوں میں طالبان نہیں تو طالبان کے اساتذہ کی حکومت ہے جو طالبان کو ہر طرح کی سہولیات فراہم کرتی رہی اور وہ بھی پورے پانچ سال تک۔ امریکہ کی اتحادی کی تبدیلی بھی تاریخ کا ایک عمل ہے کیونکہ امریکہ بھارت پر زیادہ بھروسہ کرتا ہے۔ ہم پر سے اعتبار اٹھ گیا ہے۔ یہ کوئی نہیں دیکھتا کہ ہم ان پر کتنے قربان ہوگئے تھے۔